کیا یہ بحث اختلافات بڑھانے والی ہے؟
بعض لوگ مسئلہ امامت پر بحث شروع ہوتے ہی فوراً بول اٹھتے ہیں کہ آج کل ان باتوں کا زمانہ نہیں ہے! موجودہ زمانہ "اتحاد بین المسلمین" کا زمانہ ہے جبکہ جانشین پیغمبر ص کے موضوع پر گفتگو تفرقہ بازی اور اختلافات کا باعث بنتی ہے۔ آج ہمیں اپنے مشترکہ دشمنوں کا سامنا ہے ہمیں چاہیے کہ ان کے بارے سوچیں، صہیونزم (یہودیت کی عالمگیر تحریک) اور مشرق و مغرب کی سامراجی طاقتوں کا سامنا ہے لھٰذا ہمیں چاہیئے کہ ہم ان اختلافی مسائل کو پسِ پشت ڈال دیں۔ لیکن یہ انداز فکر صریحاً ایک غلطی ہے کیونکہ:
1) وہ چیزیں جو اختلافات اور تفرقہ بازی کا باعث ہیں وہ تعصب سے بھری ہوئی غیر منطقی اور کینہ پرور ابحاث ہیں۔ لیکن محبت دوستی کے ماحول میں منطقی ،دلائل کے ساتھ اور تعصب و دشمنی سے پاک ابحاث نہ صرف اختلاف میں اضافے کا باعث نہیں بنتی بلکہ باہمی فاصلوں کو کم اور مشترکہ نقطئہ نظر کو تقویت پہنچاتی ہیں۔
ابحاث نہ صرف ہمارے تعلقات برا اثر نہیں ڈالتیں بلکہ آپس میں افہام و تفہیم اور مثبت سوچ و فکر کے بڑھانے کا باعث بنتی ہیں ۔ آپس کے فاصلوں کو کم کر تی ہیں اور اگر کوئی بغض و عناد ہو تو اسے دلوں سے دھو ڈالتی ہیں۔ خاص طور پرابحاث کے نتیجہ میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ " ہمارے درمیان بہت سے مشترکہ نقطہ نظر موجود ہیں۔ کہ جن پر بھروسہ اور اعتماد کرتے ہوئے ہم اپنے مشترکہ دشمنوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
اہل سنت چار مذاہب میں تقسیم ہیں۔
1) حنفی 2) حنبلی 3) شافعی 4) مالکی
ان چار مذاہب کا وجود اہل سنت میں تفرقہ کا باعث نہیں بنا لھٰذا اگراہل سنت فقہ شیعہ کو پانچویں فقہی مذہب کی حیثیت سے ہی قبول کرلیں تو بہت سی مشکلات اور اختلافات کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ ماضی قریب میں ( تقریباً 40 سال قبل) اہل سنت کے ایک بڑے مفتی اور مصر کی الازہر یونیورسٹی کے سربراہ chancellor " شیخ شلتوت" نے ایک بڑا مئوثر قدم اٹھایا اور اہل سنت کے درمیان فقہ شیعہ کا رسمی طور پر اعلان کیا اور اس طرح سے انہوں نے اتحاد اسلامی کیلئے زبردست خدمت انجام دی جس کی وجہ سے ان کے اور ملت تشیع کے مرجع اعلٰی آیت اللہ بروجردی مرحوم کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم ہوئے۔
No comments:
Post a Comment