نہج البلاغہ خطبات
خطبہ 1: معرفت باری کے درجات، زمین و آسمان کی خلقت، آدم کی پیدائش، احکام قرآنی کی تقسیم اور حج کا بیان۔
(اس میں ابتدائے آفرینش ِزمین و آسمان اور پیدائشِ آدم کا ذکر فرمایا ہے)
تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے ، جس کی روح تک بولنے والوں کی رسائی نہیں ، جس کی نعمتوں کو گننے والے گن نہیں سکتے۔ نہ کوشش کرنے والے اس کا حق ادا کر سکتے ہیں ۔ نہ بلند پرواز ہمتیں اسے پا سکتی ہیں نہ عقل و فہم کی گہرائیاں اس کی تہ تک پہنچ سکتی ہیں ۔ اس کے کمالِ ذات کی کوئی حد معین نہیں ۔ نہ اس کے لئے توصیفی الفاظ ہیں نہ اس (کی ابتداء) کے لئے کوئی وقت ہے، جسے شمار میں لایا جا سکے، نہ اس کی کوئی مدت ہے جو کہیں پر ختم ہو جائے ۔ اس نے مخلوقات کو اپنی قدرت سے پیدا کیا، اپنی رحمت سے ہواؤں کو چلایا، تھرتھراتی ہوئی زمین پر پہاڑوں کی میخیں گاڑی۔ دین(۱) کی ابتداء اس کی معرفت ہے۔ کمالِ معرفت اس کی تصدیق ہے، کمالِ تصدیق توحید ہے۔ کمالِ توحید تنزیہ و اخلاص ہے اور کمالِ تنز یہ و اخلاص یہ ہے کہ اس سے صفتوں کی نفی کی جائے۔ کیونکہ ہر صفت شاہد ہے کہ وہ اپنے موصوف کی غیر ہے ۔ اور ہر موصوف شاہد ہے کہ وہ صفت کے علاوہ کوئی چیز ہے ۔ لہذا جس نے ذاتِ الٰہی کے علاوہ صفات مانے۔ اس نے ذات کا ایک دوسرا ساتھی مان لیا اور جس نے اس کی ذات کا کوئی اور ساتھی مانا۔ اس نے دوئی پیدا کی، اس نے اس کے لئے جز بنا ڈالا اور جو اس کے لئے اجزاء کا قائل ہوا وہ اس سے بے خبر رہا۔ اور جو اس سے بے خبر رہا۔ اس نے اسے قابلِ اشارہ سمجھ لیا اور جس نے اسے قابلِ اشارہ سمجھ لیا اس نے اس کی حد بندی کر دی اور جو اسے محدود سمجھا۔ وہ اسے دوسری چیزوں ہی کی قطار میں لے آیا جس نے یہ کہا کہ وہ کس چیز میں ہے اس نے اسے کسی شے کے ضمن میں فرض کر لیا اور جس نے یہ کہا کہ وہ کس چیز پر ہے۔ اس نے اور جگہیں اس سے خالی سمجھ لیں ۔ وہ ہے، ہوا نہیں ۔ موجود ہے۔ مگر عد م سے وجود میں نہیں آیا۔ وہ ہر شے کے ساتھ ہے ، نہ جسمانی اتصال کی طرح ، وہ ہر چیز سے علٰیحدہ ہے، نہ جسمانی دُوری کے طور پر، وہ فاعل ہے، لیکن حرکات و آلات کا محتاج نہیں ، وہ اس وقت بھی دیکھنے والا تھا جب کہ مخلوقات میں کوئی چیز دکھائی دینے والی نہ تھی۔ وہ یگانہ ہے ۔ اس لئے کہ اس کوئی ساتھی نہیں ہے کہ جس سے وہ مانوس ہو اور اسے کھو کر پریشان ہوجائے۔ اس نے پہلے پہل خلق کو ایجاد کیا ۔ بغیر کسی فکر کے جولانی کے اور بغیر کسی تجربہ کے جس سے فائدہ اٹھانے کی اسے ضرورت پڑی ہو اور وہ بغیر کسی حرکت کے جسے اس نے پیدا کیا اور بغیر کسی ولولہ اور جوش کے جس کے وہ بیتاب ہوا ہو ۔ ہر چیز کو اس کے وقت کے حوالے کیا۔ بے جوڑ چیزوں میں توازن اور ہم آہنگی پیدا کی ۔ ہر چیز کو جداگانہ طبیعت اور مزاج کا حامل بنایا ۔ اور ان طبیعتوں کے لئے مناسب صورتیں ضروری قرار دیں ۔ وہ ان چیزوں کو ان کے وجود میں آنے سے پہلے جانتا تھا۔ ان کی حدو نہایت پر احاطہ کیا ہوئے تھا اور ان کے نفوس و اعضاء کو پہچانتا تھا۔ پھر یہ کہ اس نے کشادہ فضا، وسیع اطراف و اکناف اور خلا کی وسعتیں خلق کیں اور ان میں ایسا پانی بہایاجس کے دریائے مواج کی لہریں طوفانی اور بحر زخار کی موجیں تہ بہ تہ تھیں اسے تیز ہوا اور تند آندھی کی پُشت پر لادا۔ پھر اسے پانی کے پلٹانے کا حکم دیا اور اسے اس کے پابند رکھنے پر قابو دیا اور اسے پانی کی سرحد سے ملا دیا۔ اس کے نیچے ہوا دُور تک پھیلی ہوئی تھی اور اوپر پانی ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ پھر اللہ سُبحانہ نے اس پانی کے اندر ایک ہوا خلق کی، جس کا چلنا بانجھ (بے ثمر) تھا اور اسے اس کے مرکز پر قرار رکھا۔ اس کے جھونکے تیز کر دیئے اور اس کے چلنے کی جگہ دُور و دراز تک پھیلا دی۔ پھر اس ہوا کو مامور کیا کہ وہ پانی کے ذخیرے کو تھپیٹرے دے اور بحرِ بے کراں کی موجوں کو اچھالے ۔ اس ہوانے پانی کو یوُں متھ دیا۔ جس طرح دہی کے مشکیزے کو متھا جاتا ہے اور اسے دھکیلتی ہوئی تیزی سے چلی۔ جس طرح خالی فضا میں چلتی ہے اور پانی کے ابتدائی حصے کو آخری حصے پر اور ٹھہرے ہوئے کو چلتے ہوئے پانی پر پلٹانے لگی۔ یہاں تک کہ اس متلاطم پانی کی سطح بلند ہو گئی اور وہ تہ بہ تہ پانی جھاگ دینے لگا اللہ نے وہ جھاگ کھلی ہوا اور کشادہ فضا کی طرف اٹھائی اور اس سے ساتوں آسمان پیدا کئے ۔ نیچے والے آسمان کو رُکی ہوئی موج کی طرح بنایا اور اوپر والے آسمان کو محفوظ چھت اور بلند عمارت کی صورت میں اس طرح قائم کیا کہ نہ ستونوں کے سہارے کی حاجت تھی نہ بندھنوں سے جوڑنے کی ضرورت پھر ان کو ستاروں کی سج دھج اور روشن تاروں کی چمک دمک سے آراستہ کیا اور ان میں ضُو پاش چراغ او رجگمگاتا چاند رواں کیا جو گھومنے والے فلک چلتی پھرتی چھت اور جنبش کھانے والی لوح میں ہے۔ پھر خدا وند عالم نے بلند آسمانوں کے درمیان شگاف پیدا کئے اور ان کی وسعتوں کو طرح طرح کے فرشتوں سے بھر دیا۔ کچھ ان میں سر بسجود ہیں جو رکوع نہیں کرتے ، کچھ رکوع میں ہیں ، جو سیدھے نہیں ہوتے، کچھ صفیں باندھے ہوئے ہیں جو اپنی جگہ نہیں چھوڑتے اور کچھ پاکیزگی بیان کررہے ہیں جو اکتاتے نہیں ، نہ ان کی آنکھوں میں نیند آتی ہے۔ نہ ان کی عقلوں میں بھول چوک پیدا ہوتی ہے، نہ ان کے بدنوں میں سستی و کاہلی آتی ہے نہ ان پرنسیان کی غفلت طاری ہوتی ہے، ان میں کچھ تو وحی الٰہی کے امین، اس کے رسوُلوں کی طرف پیغام رسانی کے لئے زبانِ حق اور اس کے قطعی فیصلوں اور فرمانوں کو لے کر آنے جانے والے ہیں ، کچھ اس کے بندوں کے نگہبان اور جنت کے دروازوں کے پاسبان ہیں ، کچھ وہ ہیں ،جن کے قدم زمین کی تہ میں جمے ہوئے ہیں ۔ اور ان کے پہلو اطراف عالم سے بھی آگے برھ گئے ہیں ۔ ان کے شانے عرش کے پایوں سے میل کھاتے ہیں ۔ عرش کے سامنے ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہیں اور اس کے نیچے اپنے پروں میں لپٹے ہوئے ہیں ۔ اور ان میں اور دوسری مخلوق میں عزت کے حجاب اور قدرت کے سرا پردے حائل ہیں ۔ وہ شکل وصورت کے ساتھ اپنے رب کا تصور نہیں کرتے، نہ اس پر مخلوق کی صفتیں طاری کرتے ہیں ۔ نہ اسے محل و مکان میں گھرا ہوا سمجھتے ہیں ۔ نہ اشباہ و نظائر سے اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔
(آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بارے میں فرمایا)
پھر اللہ نے سخت و نرم اور شیریں و شورہ زار زمین سے مٹی جمع کی، اسے پانی سے اتنا بھگویا کہ وہ صاف ہو کر نتھر گئی اور تری سے اتنا گوُندھا کہ اس میں لس پیدا ہو گیا۔ اس سے ایک ایسی صورت بنائی، جس میں موڑ ہیں اور جوڑ، اعضا ہیں اور مختلف حصے۔ اسے یہاں تک سکھایا کہ وہ خود تھم سکی اور اتنا سخت کیا کہ وہ کھنکھنانے لگی۔ ایک وقت معین اور مدت معلوم تک اسے یونہی رہنے دیا۔ پھر اس میں روح پھونکی، تو وہ ایسے انسان کی صورت میں کھڑی ہو گئی جو قوائے ذہنی کو حرکت دینے والا ۔ فکری حرکات سے تصرف کرنے والا ۔ اعضا و جوارح سے خدمت لینے والا اور ہاتھ پیروں کو چلانے والا ہے اور ایسی شناخت کا مالک ہے۔ جس سے حق و باطل میں تمیز کرتا ہے۔ اور مختلف مزوں ، بوؤں ، رنگوں اور جنسوں میں فرق کرتا ہے۔ خود رنگا رنگ کی مٹی اور ملتی جلتی ہوئی موافق چیزوں اور مخالف ضدوں اور متضاد خلطوں سے اس کا خمیر ہوا ہے۔ یعنی گرمی، سردی ، تری خشکی کا پیکر ہے۔
پھر اللہ نے فرشتوں سے چاہا کہ وہ اس کی سونپی ہوئی ودیعت ادا کریں اور اس کے پیمان وصیت کو پورا کریں ۔ جو سجدہٴ آدم کے حکم کو تسلیم کرنے اور اس کی بزرگی کے سامنے تواضع و فروتنی کے لئے تھا۔ اس لئے اللہ نے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا۔ اسے عصبیت نے گھیر لیا۔ بدبختی اس پر چھا گئی۔ آگ سے پیدا ہوانے کی وجہ سے اپنے کو بزرگ و برتر سمجھا۔ اور کھنکھناتی ہوئی مٹی کی مخلوق کو ذلیل جانا۔ اللہ نے اسے مہلت دی تاکہ وہ پورے طور پر غضب کا مستحق بن جائے اور (بنی آدم) کی آزمائش پایہٴ تکمیل تک پہنچے اور وعدہ پورا ہو جائے۔ چنانچہ اللہ نے اس سے کہا کہ تجھے وقتِ معین کے دن تک کی مہلت ہے۔ پھر اللہ نے آدم کو ایسے گھر میں ٹھہرایا۔ جہاں ان کی زندگی کو خوش گوار رکھا۔ انہیں شیطان اور اس کی عداوت سے بھی ہوشیار کر دیا۔ لیکن ان کے دشمن نے ان کے جنت میں ٹھیرےنے اور نیکو کاروں میں مل جُل کر رہنے پَر حسد کیا اور آخر کار انہیں فریب دے دیا۔ آدم نے یقین کو شک اور ارادے کے استحکام کو کمزوری نے یقین کو شک اور ارادے کے استحکام کو کمزوری کے ہاتھوں بیچ ڈالا۔ مسرت کو خوف سے بدل لیا۔ اور فریب خوردگی کیوجہ سے ندامت اٹھائی۔ پھر اللہ نے آدم کے لئے توبہ کی گنجائش رکھی۔ انہیں رحمت کے کلمے سکھائے، جنت میں دوبارہ پہنچانے کا ان سے وعدہ کیا اور انہیں دارِ ابتلا و محل افزائشِ نسل میں اتاردیا۔ اللہ سبحانہ نے ان کی اولاد سے انبیاء چُنے۔ وحی پر ان سے عہدو پیمان لیا۔ تبلیغ ِ رسالت کا ا نہیں امین بنایا۔ جبکہ اکثر لوگوں نے اللہ کا عہد بدل دیاتھا۔ چنانچہ وہ اس کے حق سے بے خبر ہو گئے۔ اوروں کو اس کا شریک بنا ڈالا۔ شیاطین نے اس کی معرفت سے انہیں رد گرداں اور اس کی عبادت سے الگ کر دیا۔ اللہ نےان میں اپنے رسول مبعوث کئے۔ اور لگاتار انبیاء بھیجے تاکہ ان سے فطرت کے عہدو پیمان پورے کرائیں ۔ اس کی بھولی ہوئی نعمتیں یاد دلائیں ۔ پیغامِ ربانی پہنچا کر حجت تمام کریں ۔ عقل کے دفینوں کو ابھاریں اور نہیں قدرت کی نشانیاں دکھائیں ۔ یہ سروں پر بلند بام آسمان ، ان کے نیچے بچھا ہوا فرشِ زمیں ، زندہ رکھنے والا سامانِ معیشت فنا کرنے والی اجلیں ، بوڑھا کر دینے والی بیماریاں اور پے در پے آنے والے حادثات۔
اللہ سبحانہ نے اپنی مخلوق کو بغیر کسی فرستادہ پیغمبر یا آسمانی کتاب یا دلیلِ قطعی یا طریقِ روشن کے کبھی یونہی نہیں چھوڑا۔ ایسے رسول، جنہیں تعداد کی کمی اور جھٹلانے والوں کی کثرت درماندہ و عاجز نہیں کرتی تھی۔ ان میں کوئی سابق تھا، جس نے بعد میں آنے والے کا نام و نشان بتایا۔ کوئی بعد میں آیا، جسے پہلا پہچنوا چکا تھا۔ اسی طرح مدتیں گذر گئیں ۔ زمانے بیت گئے۔ باپ داداؤں کی جگہ پر ان کی اولادیں بس گئیں ۔ یہاں تک کہ اللہ سبحانہ‘ نے ایفائے عہد و اتمام نبوت کے لئے محمد کو مبعوث کیا، جن کے متعلق نبیوں سے عہد وپیمان لیا جا چکا تھا، جن کے علاماتِ (ظہور) مشہور محل ولادت مبارک و مسعود تھا۔ اس وقت زمین پر بسنے والوں کے مسلک جُدا جُدا خواہشیں متفرق و پراگندہ اور راہیں الگ الگ تھیں ۔ یوں کہ کچھ اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دیتے، کچھ اس کے ناموں کو بگاڑ دیتے۔ کچھ اسے چھوڑ کر اوروں کی طرف اشارہ کرتے تھے خدا وندِ عالم نے آپ کی وجہ سے انہیں گمراہی سے ہدایت کی راہ پر لگایا او ر آپ کے وجود سے انہیں جہالت سے چھڑایا۔ پھر اللہ سبحانہ‘ نے محمد کو اپنے لقاؤ قرب کے لئے چنا، اپنے خاص انعامات آپ کے لئے پسند فرمائے اور دارِ دنیا کی بودو باش سے آپ کو بلند تر سمجھا اور زحمتوں سے گھری ہوئی جگہ سے آپ کے رخ کو موڑا اور دنیا سے باعزت آپ کو اٹھا لیا۔ حضرت تُم میں اسی طرح کی چیز چھوڑ گئے، جو انبیاء اپنی امتوں میں چھوڑتے جاتے آئے تھے۔ اس لئے کہ وہ طریق واضح و نشانِ محکم قائم کئے بغیر یوں ہی بے قید و بند انہیں نہیں چھوڑتے تھے۔ پیغمبر (ص) نے تمہارے پروردگار کی کتاب تم میں چھوڑی ہے۔ اس حالت میں کہ انہوں نے کتاب(۲) کے حلال و حرام ، واجبات و مستحبات، ناسخ و منسوخ رخص و عزائم، خاص و عام، عبرو امثال ، مقیدو مطلق ، محکم و منشابہ کو واضح طور سے بیان کر دیا۔ مجمل آیتوں کی تفسیر کر دی۔ اس کی گتھیوں کو سلجھا دیا۔ اس میں کچھ آیتیں وہ ہیں ، جن کے جاننے کی پابندی عائد کی گئی ہے اور کچھ وہ ہیں کہ اگر اس کے بندے ان سے ناواقف رہیں تو مضائقہ نہیں ، کچھ احکام ایسے ہیں جن کا وجوب کتاب سے ثابت ہے اور حدیث سے ان کے منسوخ ہونے کا پتہ چلتا ہے اور کچھ احکام ایسے ہیں ، جن پر عمل کرنا حدیثِ کی روُ سے واجب ہے لیکن کتاب میں ان کے ترک کی اجازت ہے۔ اس کتاب میں بعض واجبات ایسے ہیں ۔ جن کو وجوب وقت سے وابستہ ہے اور زمانہٴ آئندہ میں ان کو وجوب برطرف ہو جاتا ہے۔ قرآن کے محرمات میں بھی تفریق ہے ۔ کچھ کبیرہ ہیں ۔ جن کے لئے آتشِ جہنم کی دھمکیاں ہیں اور کچھ صغیرہ ہیں جن کے لئے مغفرت کے توقعات پیدا کئے ہیں ۔ کچھ اعمال ایسے ہیں جن کا تھوڑا سا حصہ بھی مقبول ہے۔ اور زیادہ سے زیادہ اضافہ کی گنجائش رکھی ہے۔
اسی خطبہ میں حج کے سلسلہ میں فرمایا : اللہ نے اپنے گھر کا حج تم پر واجب کیا۔ جسے لوگوں کا قبلہ بنایا۔ جہاں لوگ اس طرح کھنچ کر آتے ہیں ۔ جس طرح پیاسے حیوان پانی کی طرف اور اس طرح دارفتگی سے بڑھتے ہیں ، جس طرح کبوتر اپنے آشیانوں کی جانب۔ اللہ جلّ شان نے اس کو اپنی عظمت کے سامنے ان کی فروتنی و عاجزی اور اپنی عزت کے اعتراف کا نشان بنایا ہے۔ اُس نے اپنی مخلوق میں سے سننے والے لوگ چن لیے جنہوں نے اس کی آواز پر لبیک کہیں اور اس کے کلام کی تصدیق کی وہ انبیاء کی جگہوں پر ٹہرے۔ عرش پر طواف کرنے والے فرشتوں سے مشابہت اختیار کی۔ وہ اپنی عبادت کی تجارت گاہ ہیں منفعتوں کو سمیٹتے ہیں اور اس کی وعدہ گاہ مغفرت کی طرف بڑھتے ہیں ۔ اللہ سبحانہ نے اس گھر کو اسلام کا نشان پناہ چاہنے والوں کے لیے حرم بنایا ہے اس کا حج فرض اور ادائیگی حق کو واجب کیا ہے اور اس کی طرف راہ نور دی فرض کر دی ہے۔ چنانچہ اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ ا للہ کا واجب الادا حق لوگوں پر یہ ہے کہ وہ خانہء کعبہ کا حج کریں ، جنہیں وہاں تک پہنچنے کی استطاعت ہو اور جس نے کفر کیا تو جان لے کہ اللہ سارے جہان سے بے نیاز ہے۔
----------------------------------------------------------
(۱) دین کی اصل و اساس خدا شناسی ہے" دین کے لغوی معنی اطاعت اور عرفی معنی شریعت کے ہیں یہاں خواہ لغوی معنی مراد لیے جائیں یا عرفی دونوں صورتوں میں اگر ذہن کسی معبود کے تصور سے خالی ہو، تو نہ اطاعت کا سوال پیدا ہوتا ہے اور نہ کسی آئین کی پابندی کا کیونکہ جب کوئی منزل ہی سامنے نہ ہو گی، تو منزل کے رخ پر بڑھنے کے کیا معنی اور جب کوئی مقصد ہی پیشِ نظر نہ ہو گا تو اس کےلئے تگ و دو کرنے کا کیا مطلب! البتہ جب انسان کی عقل و فطرت اس کا سرشتہ کسی مافوق الفطرت طاقت سے جوڑ دیتی ہے اور اس کا ذوق پر ستاری و جذبہ معبودیت اسے کسی معبود کے آگے جھکا دیتا ہے تو وہ من مانی کر گزرنے کے بجائے اپنی زندگی کو مختلف قسم کی پابندیوں میں جکڑا ہوا محسوس کرتا ہے اور انہی پابندیوں کا نام دین ہے۔ جس کا نقطہء آغاز صانع کی معرفت اور اس کی ہستی کا اعتراف ہے۔
معرفت کی بنیادی حیثیت کی طرف اشارہ کرنے کے بعد اس کے ضروری ارکان و شرائط بیان فرمائے ہیں اور عموماً افراد انسانی جن ناقص مراتب ادراک کو اپی منزل آخر بنا کر قانع ہو جاتے ہیں ان کے ناکافی ہونے کا اظہار فرمایا ہے اور اس کا پہلا درجہ یہ ہے کہ فطرت کے وجدانی احساس اور ضمیر کی رہنامئی سے یا اہلِ مذاہب کی زبان سے سن کر اُس ان دیکھی ہستی کا تصور ذہن میں پیدا ہو جائے جو خدا کہی جاتی ہے۔ یہ تصور در حقیقت فکر و نظر کی ذمہ داری اور تحصیل معرفت کا حکم عائد ہونے کا عقلاً پیش خیمہ ہے لیکن تساہل پسند یا ماحول کے دباؤ میں اسیر ہستیاں اس تصور کے پیدا ہونے کے باوجود طلب کی زحمت گوارا نہیں کرتیں تو وہ تصور تصدیق کی شکل اختیار نہیں کرتا۔ اس صورت میں وہ معرفت سے محروم ہو جاتی ہیں اور باوجودِ تصور، بمنزل تصدیق سے ان کی محرومی چونکہ بال اختیار ہوتی ہے۔ اس لیے وہ اس پر مواخذہ کی مستحق ہوتی ہیں لیکن جو اس تصور کی تحریک سے متاثر ہو کر قدم آگے بڑھاتا ہے وہ غور و فکر ضروری سمجھتا ہے اور اس طرح دوسرا درجہ ادراک کا حاصل ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ مخلوقات کی بو قلمونیوں اور مصنوعات کی نیرنگیوں سے صانع عالم کا کھوج لگایا جائے۔ کیونکہ ہر نقش نقاش کے وجود پر اور ہر اثر موئثر کی کارفرمائی پر ایک ٹھوس اور بے لچک دلیل ہے۔ چنانچہ انسان جب اپنے گرد و پیش نظر دوڑاتا ہے، تو اسے ایسی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی کہ جو کسی صانع کی کارفرمائی کے بغیر موجود ہو گئی ہو۔ یہاں تک کہ کوئی نقش قدم بغیر راہرو کے اور کوئی عمارت بغیر معمار کے کھڑی ہوتے ہوئے نہیں دیکھتا، تو کیونکر یہ باور کر سکتا ہے کہ یہ فلک نیلگوں اور اس کی پہنائیوں میں آفتاب و مہتاب کی تجلیّاں اور یہ زمین اور اس کی وسعتوں میں سبزہ و گل کی رعنائیاں بغیر کسی صانع کی صنعت طرازی کے موجود ہو گئی ہوں گی۔ لہذا موجودات عالم اور نظم کائنات کو دیکھنے کے بعدکوئی انسان اس نتیجہ تک پہنحنے سے اپنے دل و دماغ کو نہیں روک سکتا کہ اس جہان رنگ وبو کا کوئی بنانے سنوارنے والا ہے کیونکہ تہی دامنِ وجود سے فیضان وجود نہیں ہو سکتا اور نہ عدم سے وجود کا سرچشمہ پھوٹ سکتا ہے قرآن نے استدلال کی طرف اشارہ کیا ہے۔“فی اللہ شک فاطرسٰمٰوات ولارض“۔کےااللہ کے وجودمیں شک ہو سکتا جو زمین و آسمان کاپیدا کرنے والا ہے لیکن یہ درجہ بھی کافی ہے۔جبکہ اس کی تصدیق میں غیر کی الوہیت کے عقیدہ کی آمیزش ہو۔ تیسرا درجہ یہ کہ اس کی ہستی کا اقرارِ وحدت ویگانگت کے اعتراف کے ساتھ ہو۔ بغیر اس کے خدا کی تصدیق مکمل نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ جس کے ساتھ اور بھی خدا مانے گے۔وہ ایک نہیں ہو گا اور خدا کے لیے ایک ہونا ضروری ہے کیونکہ ایک سے زائد ہونے کی صورت میں یہ سوال پیدا ہو گا کہ اس کائنات کو ان میں سے ایک نے پیدا کیا ہے ےا سب نے مل جل کر اگر ایک نے پیدا کیا ہے۔تو اس میں کوئی خصوصیت ہونا چاہیئے ورنہ اس ایک کو بلا وجہ ترجیح ہو گی جو عقلَا باطل ہے اور اگر سب نے مل جل کر بنایا ہے تو دو حال سے خالی نہیں یا تو وہ دوسروں کی مدد کے بغیر اپنے امور کی انجام دہی نہ کر سکتا ہوگا ےا ان کی شرکت و تعاون سے بے نیازہو گا۔پہلی صورت میں اس کا محتاج دستِ نگر ہونا اور دوسری صورت میں ایک فعل کے لئے مستقل فاعلوں کا کار فرما ہونا لازم آئیگا اور ےہ دونوں صورتیں اپنے مقام پر باطل کی جا چکی ہیں اور اگر یہ فرض کیا جائے کہ سارے خداؤوں نے حصہ رسدی مخلوقات کو آپس میں بانٹ کر ایجاد کیاہے تو اس صورت میں تمام ممکنات کی ہر واجب الوجود سے یکساں نسبت نہ رہے گی، بلکہ صرف اپنے بنانے والے ہی سے نسبت ہو گی۔حالانکہ ہر اجب کو ہر ممکن سے اور ہر ممکن کو ہر واجب سے یکساں نسبت ہونا چاہیے۔ کیونکہ تمام ممکنات اثر پذیری ہیں اور تام واجب الوجود اثر اندازی ہیں ایک سے مانے گئے ہیں ۔ تو اب اسے ایک مانے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ متعدد خالق ماننے کی صورت میں کسی چیز کے موجود ہونے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی اور زمین و آسمان اور کائنات کی ہر شئے کے لیے تباہی و بربادی ضروری قرار پاتی ہے۔ اللہ سبحانہ نے اس دلیل کو ان لفظوں میں پیش کیا ہے۔" لو کان فیھا الھۃ الا اللہ لفسدتا" اگر زمین و آسمان میں اللہ کے علاوہ اور بھی خدا ہوتے تو یہ زمین آسمان دونوں تباہ و برباد ہو جاتے۔چوتھا درجہ یہ ہے کہ اسے ہر نقص و عیب سے پاک سمجھا جائے اور جسم و صورت ، تمثیل و تشبیہ، مکان و زمان ، حرکت و سکون اور عجز و جہل سے منزہ مانا جائے۔ کیونکہ اس باکمال و بے عیب ذات میں نہ کسی نقص کا گزر ہو سکتا ہے نہ اس کے دامن پر کسی عیب کا دھبّہ ابھر سکتا ہے اور نہ اس کو کسی کے مثل و مانند ٹھرایا جا سکتا ہے۔ کیو نکہ یہ تمام چیزیں وجوب کی بلندیوں سے اتار کر امکان کی پستیوں میں لے آانیوالی ہیں ۔ چنانچہ قدرت نے تو حید کے پہلو بہ پہلو اپنی تنزیہ و تقدیس کو بھی جگہ دی ہے:۔
۱۔کہہ دو کہ اللہ یگانہ ہے اس کی ذات بے نیاز ہے نہ وہ کسی کی اولاد ہے نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ اس کا کوئی ہم پلّہ ہے۔
۲۔ اس کو نگاہیں دیکھ نہیں سکتیں ، البتہ وہ نگاہوں کو دیکھ رہا ہے اور وہ ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز سے آگاہ اور با خبر ہے۔
۳۔اللہ کے لیے مثالیں نہ گڑھ لیا کرو۔ بے شک اصل حقیقت کو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
۴۔ کوئی چیز اس کے مانند نہیں ہے وہ سنتا بھی ہے اور دیکھتا بھی ہے۔
پانچواں درجہ یہ ہے جس سے معرفت مکمل ہوتی ہے کہ اس کی ذات میں صفتوں کو الگ سے نہ سمویا جائے کہ ذاتِ احدیت میں دوئی کی جھلک پیدا ہو جائے اور توحید اپنے صحیح مفہوم کو کو کر ایک تین اور تین ایک کے چکر میں پڑ جائے۔ کیونکہ اسکی ذات جو ہر و عرض کا مجموعہ نہیں کہ اس میں صفتیں اس طرح قائم ہوں جس طرح پھول میں خوشبو اور ستاروں میں چمک بلکہ اس کی ذات خود صفتوں کا سر چشمہ ہے اور وہ اپنے کمالاتِ ذاتی کے اظہار کے لیے کسی توسط کی محتاج نہیں ہے اگر اسے عالم کہا جاتا ہے۔ تو اس بناء پر کہ اس کے علم کے آثار نمایاں ہیں اور اگر اسے قادر کہا جاتا ہےتو اس لیے کہ ہر ذرہ اسکی قدرت و کا رفرمائی کا پتہ دے رہا ہے اور سمیع و بصیر کہا جاتا ہے تو اس وجہ سے کہ کائنات کی شیرازہ بندی اور مخلوقات کی چارہ سازی دیکھے اور سنے بغیر نہیں ہو سکتی۔ مگر ان صفتوں کی نمود اس کی ذات میں اس طرح نہیں ٹہرائی جا سکتی، جس طرح ممکنات میں کہ اس میں علم آئے تو وہ عالم ہو اور ہاتھ پیورں میں توانائی آئے تو وہ توانا ہو کیونکہ صفت کو ذات سے الگ ماننے کا لازمی نتیجہ دوئی ہے اور جہاں دوئی کا تصور ہوا وہاں توحید کا عقیدہ رخصت ہوا۔ اسی لیے امیرالمومنین (ع) نے زائد بر ذات صفات کی نفی فرما کر صحیح توحید کے خدوخال سے آشنا فرمایا ہے اور دامن وحدت کو کثرت کے دھبوں سے بدنما نہیں ہونے دیا ۔ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ اس کے لیے کوئی صفت تجویز ہی نہیں کی جاسکتی کہ ان لوگوں کے مسلک کی تائید ہو، جو سلبی تصورات کے بھیانک اندھیروں میں ٹھوکریں کھا رہے میں حلانکہ کائنات کا گوشہ گوشہ اس کی صفتوں کے آثار سے چھلک رہا ہے اور مخلوقات کا ذرہ ذرہ گواہی دے رہا ہے کہ وہ جاننے والا ہے۔ قدرت والا ہے۔ سننے اور دیکھنے والا ہے اور اپنے دامن ربوبیت میں پالنے والا اور سا یہ رحمت میں پروان چڑھانے والا ہے۔ بلکہ مقصد یہ ہے کہ اس کی ذات میں الگ سے کوئی ایسی چیز تجویز نہیں کی جاسکتی کہ اسے صفت سے تعبیر کرنا صحیح ہو کیونکہ جو ذات ہے وہی صفت ہے اور جو صفت ہے وہی ذات ہے۔ اسی مطلب کو امام جعفر صادق (ع) کی زبانِ فیض ترجمان سے سماعت فرمائیے اور پھر مذاہب عالم کے عقیدہ توحید کو اس کی روشنی میں دیکھئے اور پر کھئے کہ توحید کے صحیح مفہوم سے روشناس کرانے والی فردیں کون تھیں ۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں :
"ہمارا خدائے بزرگ و بر تر ہمیشہ سے عینِ علم رہا ۔ حالانکہ معلوم ابھی کتم عدم میں تھا۔ اور عین سمع و بصر رہا حا لا نکہ نہ کسی آواز کی گونج بلند ہوئی تھی اور نہ کوئی دکھائی دینے والی چیز تھی اور عین قدرت رہا حالانکہ قدرت کے اثرات کو قبول کرنے والی کوئی شے نہ تھی۔ پھر جب اس نے ان چیزوں کو پیدا کیا اور معلوم کا وجود ہوا تو اس کا علم معلومات پر پوری طرح منطبق ہوا خواہ وہ سنی جانے والی صدائیں ہوں یا دیکھی جانے والی چیزیں ہوں اور مقدور کے تعلق سے اس کی قدرت نمایاں ہوئی"۔
یہ وہ عقیدہ ہے، جس پر ائمّہ واہلبیت (ع) کا اجماع ہے مگر سواد اعظم نے اس کے خلاف دوسرا راستہ اختیار کیا ہے اور ذات و صفات میں علیحدگی کا تصور پیدا کر دیا ہے۔ چنانچہ شہر ستانی نے تحریر کیا ہے کہ:
"ابوالحسن اشعری کہتے ہیں کہ باری تعالیٰ علم، قدرت ، حیات، ارادہ، کلام اور سمع و بصر کے ذریعہ عالم، قادر، زندہ، مرید متکلم اور سمیع و بصیر ہے"۔
اگر صفتوں کو ا س طرح زائد بر ذات مانا جائے گا تو دو حال سے خالی نہیں یا تو یہ صفتیں ہمیشہ سے اس میں ہوں گی یا بعد میں طاری ہوئی ہوں گی۔ پہلی صورت میں جتنی اس کی صفتیں مانی جائیں گی اتنے ہی قدیم اور ماننا پڑیں گے ، جو قدامت میں اس کے شریک ہوں گے۔ تعالیٰ اللہ عما یشرکون اور دوسری صورت میں اس کی ذات کو محلِ حوادث قرا دینے کے علاوہ یہ لازم آئے گا کہ وہ ان صفتوں کے پیدا ہونے سے پہلے نہ عالم ہو، نہ قادر نہ سمیع ہو اور نہ بصیر اور یہ عقیدہ اساسی طور پر اسلام کے خلاف ہے۔
(۲)۔ قرآن مجید کے احکام کے سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ اس میں حلال و حرام کا بیان ہے ، جیسے” احل اللہ البیع و حرم الربوا۔ اللہ نے خریدو فروخت کو جائز کیا ہے اور سود کو حرام کر دیا ہے “۔ اس میں فرائض و مستحبات کا ذکر ہے۔ جیسے ” جب نماز(خوف ) ادا کر چکو تو اٹھتے لیٹتے اللہ کو یاد کرو اور جب (دشمن کی طرف سے ) مطمئن ہو جاؤ، تو پڑھ (معمول کے مطابق) نماز پڑھا کرو ) نماز فرض ہے اور دوسرے اذکار مستحب ہیں ۔ اس میں ناسخ و منسو خ بھی ہیں ۔ ناسخ جیسے عدہٴ وفات میں اربعۃ اشھر و عشرا (چار مہینے دس دن ) اور منسوخ جیسے متاعاًالی الحول غیر اخراج جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدہٴ وفات ایک سال ہے۔ اس میں مخصوص مواقع پر حرام چیزوں کے لئے رخصت و اجازت بھی ہے جیسے فمن اضطر غیر باغ والا عادفلا اثم علیہ۔ اگر کوئی شخص بحالت مجبوری (حرام چیزوں میں سے کچھ کھالے ، تو اس پر کوئی گناہ نہیں ۔ درآں صورتیکہ حدودِ شریعت کو توڑنا اور ان سے متجاوز ہونا نہ چاہتا ہو“۔ اس میں اٹل احکام بھی ہیں جیسے لایشرک بعبادۃ ربہ احدا۔ چاہئے کہ وہ اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے ۔“ اس میں خاص و عام بھی ہیں ۔ خاص وہ کہ جس کے لفظ میں وسعت ہو اور معنی مقصود کا دائرہ محدود ہو جیسے و انی فضلتکم علی العٰلمین اے بنی اسرائیل ہم نے تمہیں عالمین پر فضیلت دی ہے ۔“ اس سے عالمین سے صرف انہی کا زمانہ ہے اگرچہ لفط تمام جہانوں کو شامل ہے اور عام وہ ہے جو اپنے معنی میں پھیلاؤ رکھتا ہو ۔ جیسے ”واللہ بکل شئیٍ علیم “ اللہ ہر چیز کا جانے والا ہے ۔ اس میں عبرتیں اور مثالیں بھی ہیں ۔ عبرتیں جیسے فاخذہ اللہ نکال لاٰخرۃ والا ولیٰ ان فی ذٰلک لعبرۃ لمن یخشیٰ ” خدا نے اسے دنیا و آخرت کے عذاب میں دھر لیا۔ جو اللہ سے ڈرے اس کے لیے اس میں عبرت کا سامان ہے “ اور مثالیں جیسے مثل الذین ینفقون اموالہم فی سبیل اللہ کمثل جنۃ انبتت سبع سنابل فی کل سنبلۃ مائۃ حبۃ ۔” جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں ۔ ان کی مثال اس بیج کی سی ہے۔ جس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بالی میں سو سودانے ہوں ۔ “ اس میں مطلق ومقید ہیں ۔ مطلق وہ کہ جس میں کسی قسم کی تقیید و پابندی نہ ہو۔ جیسے واذ قال موسیٰ لقومہ ان اللہ یا مرکم ان تذبحوابقرۃ ۔ اس موقعہ کو یاد کرو کہ جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ تمہیں اللہ کا یہ حکم ہے کہ تم کوئی سی گائے ذبح کرو۔“ اور مقید و ہ کہ جس میں تشخص و قیود کی پابندی ہو۔ جیسے انہ یقول انھا بقرۃ لا ذلول تثیرا لارض ولا تسقی الحرث اللہ فرماتا ہے کہ وہ ایسی گائے ہو ۔ جو نہ ہل میں جوتی گئی ہو اور نہ اس سے کھیتوں کو سینچا گیا ہو۔ “ اس میں محکم و متشابہہ بھی ہیں ۔ محکم وہ کہ جس میں کوئی گنجلک نہ ہو جیسے ان اللہ علٰ کل شئیِ قدیر ۔ ” بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔“ اور متشابہہ وہ کہ جس کے معنی الجھے ہوئے ہوں جیسے الرحمن علے العرش استویٰ ” جس کے ظاہر مفہوم سے یہ تو ہم بھی ہوتا ہے کہ وہ جسمانی طور سے عرش پر برقرار ہے۔ لیکن مقصود غلبہ و تسلط ہے۔ اس میں بعض احکام مجمل ہیں جیسے اقیموالصلٰوۃ نماز قائم کرو ۔ “ اس میں گہرے مطالب بھی ہیں جیسے وہ آیات کہ جن کے متعلق قدرت کا ارشاد ہے کہ لایعلم تاویلہ الا اللہ والراسخون فی العلم ان کی تاویل کو اللہ اور رسول اور علم کی گہرائیوں میں اترے ہوئے لوگوں کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں جانتا ۔ پھر ایک دوسرے عنوان سے تفصیل بیان فرماتے ہیں کہ اس میں کچھ کچھ چیزیں وہ ہیں جن کا جاننا ضروری ہے جیسے فاعلم انہ الا الٰہ الا اللہ ۔ اس بات کو جان لو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ۔“ اور کچھ چیزیں وہ ہیں جن کا جاننا ضروری نہیں ہے جیسے الم وغیرہ اور اس میں کچھ احکام ایسے ہیں جو سنت ِ پیغمبر سے منسوخ ہو گئے ہیں ۔ جیسے واللاتی یاتین الفاحشۃ من نساء کم فاستشہدوا علیہن اربعۃ منکم فان شہدوا فامسکوھن فی البیوت حتی یتوفاھن الموت تمہاری عورتوں میں سے جو بدچلنی کی مرتکب ہوں ۔ ان کی بدکاری پر اپنے آدمیوں میں سے چار کی گواہی لو۔ اور اگر وہ گواہی دیں تو ایسی عورتوں کو گھروں میں بند کردو، یہاں تک کہ موت ان کی زندگی ختم کر دے۔ “ یہ سزا اوائل ااسلام میں تھی۔ لیکن بعد میں شوہر دار عورتوں کے لئے اس حکم کو حکم رجم سے منسوخ کر دیا گیا ۔ اس میں کچھ احکام ایسے ہیں جن سے سنت پیغمبر منسوخ ہو گئی ۔ جیسے فول وجہک شطرالمسجد الحرام چاہئے کہ تم اپنا رخ مسجد حرام کی طرف موڑ لو۔ “ اس سے بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم منسوخ کر دیا گیا۔ اس میں ایسے احکام بھی ہیں جو صرف مقررہ وقت پر واجب ہوتے ہیں اس کے بعد ان کا وجوب باقی نہیں رہتا ۔ جیسے اذا نودی للصلٰوۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الیٰ ذکر اللہ جب جمعہ کے دن نماز کے لئے پکارا جائے، تو ذکر الٰہی کی طرف جلدی سے بڑھو۔“ اس میں حرام کردہ چیزوں کی تفریق بھی قائم کی گئی ہے۔جیسے گناہوں کا صغیرہ کبیرہ ہونا۔ صغیرہ جیسے قل للمومنین یغضوا من ابصارھم ایمان والوں سے کہو کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھیں اور کبیرہ جیسے ومن یقتل موٴمناً متعمداً فجزاؤہ جہنم خالداً فیہا۔“ جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر مار ڈالے اس کی سزا دوزخ ہے ، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔“ اس میں ان اعمال کا بھی ذکر ہے، جنہیں تھوڑا سا بجالانا بھی کفایت کرتا ہے اور زیادہ سے زیادہ بجالانے کی بھی گنجائش ہے۔ جیسے فاقرؤا ماتیسروا من القرآن ۔” جتنا بآسانی قرآن پڑھ سکو اتنا پڑھ لیا کرو۔“
No comments:
Post a Comment