نہج البلاغہ خطبات
خطبہ 223: دنیا کی بے ثباتی اور اہل قبور کی حالت بے چارگی
(یہ دنیا )ایک ایسا گھر ہے جو بلاؤں میں گھرا ہوا اور فریب کاریوں میں شہرت یافتہ ہے اس کے حالات کبھی یکساں نہیں رہتے اور نہ اس میں فرو کش ہونے والے صحیح سالم رہ سکتے ہیں ۔اس کے حالات مختلف اور اطوار ادلنے بدلنے والے ہیں ۔خوش گذرانی کی صورت اس میں قابل مذمت او ر امن سلامتی کا اس میں پتہ نہیں ۔اس کے رہنے والے تیر اندازی کے ایسے نشانے ہیں کہ جن پر دنیا اپنے تیر چلاتی رہتی ہے اور موت کے ذریعہ انہیں فنا کرتی رہتی ہے ۔
اے خدا کے بندو!ا س بات کو جانے رہو کہ تمہیں اور اس دنیا کی ان چیزوں کو کہ جن میں تم ہو انہی لوگوں کی راہ پر گزرنا ہے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں کہ جو تم سے زیادہ لمبی عمروں والے ،تم سے زیادہ آباد گھروں والے اور تم سے زیادہ پائدار نشانیوں والے تھے ا ن کی آوازیں خاموش ہوگئیں ، بندھی ہوائیں اکھڑ گئیں ،بدن گل سڑ گئے ،گھر سنسان ہوگئے ،اور نام و نشان تک مٹ گئے ۔انہوں نے مضبوط محلوں اور بچھی ہوئی مسندوں کوپتھر وں اور چنی ہوئی سلوں اور پیوند زمین ہونے والی (اور لحدوں )والی قبروں سے بدل لیا کہ جن کہ صحنوں کی بنیاد تباہی و ویرانی ہے ،اورمٹی ہی سے ان کی عمارتیں مضبوط کی گئی ہیں ۔ان قبروں کی جگہیں آپس میں نزدیک نزدیک ہیں اور ان میں بسنے والے دور افتادہ مسافر ہیں ایسے مقام میں کہ جہاں وہ بوکھلائے ہوئے ہیں ا ور ایسی جگہ میں کہ جہاں (دنیا کے کاموں سے) فارغ ہو کر آخرت کی فکروں میں مشغول ہیں ۔وہ اپنے وطن سے انس نہیں رکھتے اور نزدیک کی ہمسائیگی اور گھروں کے قرب کے باوجود ہمسایوں کی طرح آپس میں میل ملاپ نہیں رکھتے اور کیونکر آپس میں ملنا جلنا ہوسکتا ہے۔ جبکہ بوسیدگی و تباہی نے اپنے سینہ سے انہیں پیس ڈالا ہے اور پتھروں اور مٹی نے انہیں کھالیا ہے ۔تم بھی یہی سمجھو کہ (گویا ) وہیں پہنچ گئے جہاں وہ پہنچ چکے ہیں اور اسی خواب گاہ (قبر)نے تمہیں بھی جکڑ لیا ہے اور اسی امانت گاہ (لحد)نے تمہیں بھی چمٹا لیا ہے ۔اس وقت تمہاری حالت کیا ہو گی جب تمہارے سارے مرحلے انتہا کو پہنچ جائیں گے اور قبروں سے نکل کھڑے ہوگے ۔وہاں ہر شخص اپنے اعمال کے (نفع ونقصا ن)کی جانچ کرے گا اور وہ اپنے سچے مالک خدا کی طرف پلٹائے جائیں گے اور جو کچھ افترا ء پروازیاں کرتے تھے ان کے کام نہ آئیں گی۔
No comments:
Post a Comment