امامت
امامت کی بحث کا آغاز کب ہوا؟
ہم جانتے ہیں کہ پیغمبر اسلام ص کی
وفات کے بعد مسلمان دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔
ایک
گروہ کا
عقیدہ تھا کہ پیغمبر ص نے اپنے لئے کوئی جانشین معین نہیں فرمایا بلکہ اس کام کو
امت کے سپرد کر دیا ہے۔ تاکہ امت کے افراد مل بیٹھ کر "اپنے درمیان میں سے ہی
" کسی فرد کو اپنا رہبر بنا لیں اس گروہ کو "
اہل سنت" کہا
جاتا ہے۔
دوسرے
گروہ کا
عقیدہ تھا کہ پیغمبر ص کے جانشین کے لئے ضروری ہے کہ وہ پیغمبر ص کی طرح
"گناہوں اور خطاؤں سے پاک و معصوم ہو نیز ایسے غیر معمولی اور بے پناہ علم کا
حامل ہو کہ لوگوں کی روحانی اورمادی رہبری کے عہدہ پر فائز ہو سکے اور اسلام کے
اصولوں کی حفاظت اور بقاء کا انتظام کر سکے۔ لھٰذا اس گروہ کا عقیدہ تھا کہ "
ایسے شخص (جانشین) کا انتخاب صرف خدا کی طرف سے پیغمبر ص کے وسیلہ سے ممکن
ہے۔" اور پیغمبر اسلام ص نے اس وظیفہ کو انجام دیتے ہوئے حضرت علیؑ کو اپنے
جانشین کے طور پر منتخب کر دیا ہے۔ اس گروہ کو "
امامیہ" یا "شیعہ" (اہل تشیع) کہا
جاتا ہے۔
کیا یہ بحث اختلافات بڑھانے والی ہے؟
بعض لوگ مسئلہ امامت پر بحث شروع ہوتے ہی فوراً بول اٹھتے ہیں کہ آج کل ان باتوں کا زمانہ نہیں ہے! موجودہ زمانہ "اتحاد بین المسلمین" کا زمانہ ہے جبکہ جانشین پیغمبر ص کے موضوع پر گفتگو تفرقہ بازی اور اختلافات کا باعث بنتی ہے۔ آج ہمیں اپنے مشترکہ دشمنوں کا سامنا ہے ہمیں چاہیے کہ ان کے بارے سوچیں، صہیونزم (یہودیت کی عالمگیر تحریک) اور مشرق و مغرب کی سامراجی طاقتوں کا سامنا ہے لھٰذا ہمیں چاہیئے کہ ہم ان اختلافی مسائل کو پسِ پشت ڈال دیں۔ لیکن یہ انداز فکر صریحاً ایک غلطی ہے کیونکہ:
1) وہ چیزیں جو اختلافات اور تفرقہ
بازی کا باعث ہیں وہ تعصب سے بھری ہوئی غیر منطقی اور کینہ پرور ابحاث ہیں۔ لیکن
محبت دوستی کے ماحول میں منطقی ،دلائل کے ساتھ اور تعصب و دشمنی سے پاک ابحاث نہ
صرف اختلاف میں اضافے کا باعث نہیں بنتی بلکہ باہمی فاصلوں کو کم اور مشترکہ نقطئہ
نظر کو تقویت پہنچاتی ہیں۔
ابحاث نہ صرف ہمارے
تعلقات برا اثر نہیں ڈالتیں بلکہ آپس میں افہام و تفہیم اور مثبت سوچ و فکر کے
بڑھانے کا باعث بنتی ہیں ۔ آپس کے فاصلوں کو کم کر تی ہیں اور اگر کوئی بغض و عناد
ہو تو اسے دلوں سے دھو ڈالتی ہیں۔ خاص طور پرابحاث کے نتیجہ میں یہ واضح ہو جاتا
ہے کہ " ہمارے درمیان بہت سے مشترکہ نقطہ نظر موجود ہیں۔ کہ جن پر بھروسہ اور
اعتماد کرتے ہوئے ہم اپنے مشترکہ دشمنوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
اہل سنت چار مذاہب میں
تقسیم ہیں۔
1) حنفی
2)
حنبلی
3) شافعی 4)
مالکی
ان چار مذاہب کا وجود اہل سنت میں
تفرقہ کا باعث نہیں بنا لھٰذا اگراہل سنت فقہ شیعہ کو پانچویں فقہی مذہب کی حیثیت
سے ہی قبول کرلیں تو بہت سی مشکلات اور اختلافات کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ
ماضی قریب میں ( تقریباً 40 سال قبل) اہل سنت کے ایک بڑے مفتی اور مصر کی الازہر
یونیورسٹی کے سربراہ chancellor " شیخ شلتوت" نے ایک بڑا مئوثر قدم اٹھایا اور اہل سنت
کے درمیان فقہ شیعہ کا رسمی طور پر اعلان کیا اور اس طرح سے انہوں نے اتحاد اسلامی
کیلئے زبردست خدمت انجام دی جس کی وجہ سے ان کے اور ملت تشیع کے مرجع اعلٰی آیت
اللہ بروجردی مرحوم کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم ہوئے۔
شیعوں
کا عقیدہ
ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلام کی تجلی ہر مذہب سے زیادہ مذہب تشیع میں دیکھی جا سلتی ہے
اگرچہ ہم تمام اسلامی مذاہب کا احترام کرتے ہیں لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ مذہب تشیع
ہی حقیقی اسلام کے سارے پہلووں کا مکمل اور بہترین تعارف کراسکتا ہے اور اسلامی
حکومت سے متعلق تمام مسائل کا حل پیش کر سکتاہے۔
تو پھر کیوں نہ اس مکتب کی دلائل کے ساتھ اپنے بچوں کو تعلیم دیں؟ اور اگر ہم یہ
کام انجام نہیں دیتے تو یقیناً ہم نے اپنے بچوں کے ساتھ خیانت کی ہے۔
ہم پورے یقین
کیساتھ کہتے ہیں کہ " پیغمبر اسلام ص نے اپنے جانشین کو معین فرمایاہے"
کیا مشکل ہے کہ اگر عقل و منطق اور دلائل سے اس موضوع پر بحث کو بڑھائیں؟ لیکن یہ
گفتگو کرتے وقت ہمیں بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے تاکہ دوسروں کے مذہبی جذبات کو
ٹھیس نہ پہنچنے پائے۔
اسلام کے دشمنوں نے " اتحاد بین المسلمین " کی بنیادوں کو کمزور کرنے کے
لئے شیعوں کے خلاف اہل سنت سے اور سنیوں کے خلاف اہل تشیع سے اس قدر جھوٹ بولے اور
الزام تراشیاں کی ہیں کہ چند ممالک میں یہ دونوں گروہ ایک دوسرے سے مکمل طور پر
دور ہو گئے ہیں۔ جب ہم "مسئلہ امامت" کو اس انداز سے " جیسا کہ
اوپر ذکر کیا گیا ہے" پیش کریں اور ان نکات کو کہ جن پر اہل تشیع ایمان رکھتے
ہیں قرآن و سنت کی روشنی مین دلائل سے واضح کریں گے تو معلوم ہو جائے گا کہ یہ
تمام پرو پیگنڈا غلط تھا اور ہمارے مشترک دشمنوں نے صرف زہر اگلا ہے۔
مثال کے طور پر ( آیت اللہ مکارم شیرازی) میں یہ نہیں بھول سکتا کہ اپنے سعودی عرب
کے ایک سفر کے دوران سعودی عرب کی ایک مذہبی شخصیت سے میری ملاقات اور بحث ہوئی تو
انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ " میں نے سنا ہے کہ جو قرآن اہل تشیع کے پاس
ہے وہ ہمارے پاس موجود قرآن سے مختلف ہے۔" مجھے یہ سن کر بڑا تعجب ہوا۔ میں
نےان سے کہا : بھائی اس بات کی تحقیق تو بہت آسان ہے!
میں آپ کو
دعوت دیتا ہوں کہ آپ خود یا آپ کا کوئی نمائندہ عمرہ کی ادائیگی کے بعد ایران میں
کوئی اطلاع دیئے بغیر میرے ہمراہ ایران چلے وہاں پر گلی کوچوں میں موجود مساجد میں
بڑی تعداد مٰن قرآن موجود ہیں اس کے علاوہ سب مسلمانوں کے گھروں میں بھی قرآن مجید
موجود ہیں ہم ہر اس مسجد میں جائیں گے جہاں آپ پسند فرمائیں گے یا پھر جس گھر پر
پسند فرمائیں گے اس کا دروازہ کھٹکٹھائیں گے اور ان سے قرآن طلب کریں گے تاکہ یہ
معلوم ہو جائے کہ ہمارے اور آپ کے قرآن میں ایک حرف یا ایک نقطہ تک کا اختلاف نہں
ہے۔ ( بہت سے قرآن جن سے ہم استفادہ کرتے ہیں وہ سعودی عرب ، مصر اور دیگر اسلامی
ممالک کے ہی شائع شدہ ہیں۔)
گویا امامت سے متعلق گفتگو اس انداز سے جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے اسلامی معاشرے
کی وحدت کو مستحکم کرتی ہے اور حقائق کو روشن کرنے اور آپس کے فاصلوں کو کم کرنے
میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
از اصول
عقائد صفحہ نمبر 218" آیت اللہ العظمٰی حاج شیخ ناصر مکارم شیرازی"
No comments:
Post a Comment