RBD-01

 

https://rbroz.blogspot.com/

توسل

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔‏
توسل کی تعریف:

ابن منظور کا کہنا ہے:-
        اَلْوَسِیْلۃُ المَنْزِلۃ عند المَلِک والْوَسِیلۃ الدَّرَجۃ والْوَسِیلۃ القُرْبۃ ووَسَّل فلانٌ ءٰلی اللہ وَسِیلۃً ءٰذاعَمِل عملاً تقرَّب بی ءٰلیہ۔
لسان العرب لابن منظور/ج11/ص724ط:بیروت-دار احیاء التراث

"وسیلہ ملک کے نزدیک ایک منزلت ہے، وسیلہ ایک درجہ ہے، وسیلہ قرب کو بھی کہا جاتا ہے، جب کوئی ایسا عمل کرتا ہے کہ جس سے وہ خدا کے قریب ہو جاتا ہے تو کہا جاتا ہے فلاں نے خدا تک پہنچنے کے لیے وسیلہ اختیار کیا۔"

جوہری لکھتے ہیں:-
       الوَسیلۃُ: مایتقرَّب بہ ءٰلی الغیر، والجمع الوَوسیلُ والوَسائلُ، والتوسیل والتواسُّلُ واحد: یقال: وَسَّلَ فلانٌ ءٰلی ربّہ وسیلۃٌ،  وتوَسَّلَ ءٰلیہ بوسیلۃٍ،آی تقرَّب ءٰلیہ بعمل)
                الصحاح  للجوھری/ج5/ص1841/فصل الواو/ط:بیروت-دار العلم للملاین
"وسیلہ اسے کہتے ہیں کہ جس کے ذریعے کسی دوسرے کے قریب پہنچا جا تا ہے، وسیلہ کی جمع وسیل اور وسائل ہے۔ توسیل اور توسل کا ایک ہی معنٰی ہے، کہا جاتا ہے کہ فلاں نے اپنے رب کے حضوروسیلہ اختیار کیا ، فلاں وسیلہ کے ذریعے اس کے قریب ہوا یعنی وہ عمل  کے ذریعے اس کے قریب ہوا۔"
سبکی لکھتے ہیں:-
ان یتوسل بہ ﷺ بمعنی ان طالب الحاجۃ یساءل اللہ تعالی بہ، او بجاہہاو ببرکتہ
شفاء السقام فی زیارۃ خیر الاءنام لتقی الدین السبکی/ص121/ ط: بیروت-دار الکتب العلمیۃ
"رسول خدا ﷺ سے توسل کا معنی: طالبِ حاجت کا خدا سے رسول ﷺ کے واسطہ سے، یا آپ ﷺ کی جاہ و عزت کے واسطہ سے یا آپ ﷺ کی برکت کے واسطہ سے خدا تعالٰی سے سوال کرنا ہے۔ "

شیخ سبحانی لکھتے ہیں:-
المقصود من التوسل فی المقام: ھو ان یقدم العبد ءٰلی ربہ شیئا، لیکون وسیلۃ ءٰلی اللہ تعالٰی لآن یتقبل دعاءہ ویجیبہ ءٰلی ما دعا، ویانل مطلوبہ
فی ضلال التوحید للشیخ السبحانی/ص576/التوسل لغۃ و اصطلاحاً/ ط: معاونیۃ شؤون التعلیم والبحوث الاءسلامیۃ فی الحج
"توسل سے مراد یہ ہے کہ : بندہ خدا کے حضور وسیلہ کے طور پر کوئی چیز پیش کرے تاکہ اس کی دعا قبول ہو، اور جس سے وہ دعا کر رہا ہے وہ اس کی دعا کو مستجاب کرے اور وہ بندہ اپنی حاجت و طلب کو حاصل کرے"
کبھی ہم خدا کے حضور کسی ایسے صالح عمل کو وسیلہ قرار دیتے ہیں کہ جو عمل ہم نے خالص طور پر خدا کے لیے سر انجام دیا ہوتا ہے،  کبھی ہم خدا کے حضور محمد و آل محمد علیھم السلام کی مانند کسی ایسی ہستی کو وسیلہ قرار دیتے ہیں کہ جو خدا کے نزدیک بلند مقام و مرتبہ رکھتی ہے۔ لہٰذا اس بناء پر ہم توسل کو تین قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
1-    
 اعمال صالحہ کے ذریعے توسل
2-    
 نبیﷺ کی دعا کے ذریعے توسل
3-    
 خود بنیﷺ کی ذات اقدس سے توسل
     نبی کریمﷺکی ذات اقدس سے توسل کو بھی ہم تین اقسام میں تقسیم کر سکتے ہیں
1-    
 آپﷺ کے دنیا میں آنے سے پہلے آپﷺ سے توسل
2-    
 آپﷺ کے دنیا میں آنے کے بعد آپﷺ سے توسل
3-    
 آپﷺ کے دنیا سے چلے جانے کے بعد آپﷺ سے توسل

توسل  کی اقسام:
1-     اعمال صالحہ کے ذریعے توسل
    ارشاد قدرت ہے:
 یَا اَیُّھَالَّذِینَ آَمَنُوااتَّقُوااللہَ وَابْتَغُوا ءِٰلَیْہِ الْوَسِیلَۃَوَجَاھِدُوا فِی سَبِیلِہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَْ
 سورۃ المائدۃ/آیۃ: 35
ترجمہ:      اے ایمان والو! اللہ  سے ڈرو اور اس کی طرف (قربت کا )  ذریعہ تلاش کرو  اور اس کی راہ میں جہاد  کرو شاید تمہیں کامیابی نصیب ہو۔
اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں کو اعمال صالحہ کے ذریعے اپنی ذات کے قریب آنے اور ان کو اپنی بارگاہ مین وسیلہ قرار دینے کا حکم دیا ہے توسل کی یہ قسم تمام مسلمانوں کے نزدیک  ثابت ہے اور  اس  کے بارے میں تمام مسلمانوں کی ایک ہی رائے ہے۔
سید طباطبائی تفسیر میزان میں لکھتے ہیں:
       خدا تعالٰی نے فرمایاہے: (اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے وسیلہ اختیار کرو) خدا کے قرب کو حاصل کرنے کے لیے حقیقی وسیلہ خدا کی راہ کا علم و عبادت کے ذریعے لحاظ رکھنا ہے اور مکارم شریعت کو اپنانا ہے اور یہ چیز قربت کی مانند ہے۔ اور وصول کی ایک قسم ہے اور خدا کے ساتھ مربوط کر دینے والا رابطہ فقط اور فقط بندگی میں عاجزی وانکساری کی آخری حدوں کو چھونا ہے۔
تفسیر میزان /ج 5/ ص 280/ ط بیروت-دارءٰحیاء التراث العربی۔
سیوطی در المنثور مین لکھتے ہیں:
تفسیر الدر المنثور للسیوطی / ج 2/ ص 495/ ط: بیروت دار الکتب العلمیۃ
ابن جرید اور ابن منذر نے قتادۃ سے نقل کیا ہے (وابتغوا ءٰلیہ الوسیلۃ) سے مراد یہ ہے۔ تم خدا کی اطاعت اور خدا کو راضی کرنے والے عمل کے ذریعے خدا قرب حاصل کرو۔
2-    
 نبیﷺ کی دعا کے ذریعے توسل
ارشاد قدرت ہے:
   
 

ترجمہ:      
اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے، اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے
شیخ کلینی اپنی کتاب الکافی کے باب زیارۃ المدینہ و قبر النبیﷺ میں لکھتے ہیں:
(۔۔۔۔۔۔۔۔"اللھم ءٰنک قلت: (وَلَوْ اَنَّھُمْ ءِٰذْ ظَلَمُوا اَنْفُسَھُمْ جَاءُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمْ الرَّسُولَ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّاباً رَحِیْمًا) و ءٰنی اتیت نبیک مستغفرا تائبا من ذنوبی اتوجہ بک ءٰلی اللہ ربی و ربک لیغفر لی ذنوبی " وءٰن کانت لک حاجۃ فاجعل قبر النبی ﷺ خلف کتفیک و استقبل القبلۃ و ارفع یدیک وسئال حاجتک فئانک احری ءٰن تقضی ءٰن شاء اللہ"
الکافی للشیخ الکلینی /ج4 / ص551 / کتاب الحج / باب: دخول المدینہ و۔ /ح 1 / ط: طہران-دار الکتب الاسلامیۃ
۔۔۔۔۔۔۔۔"اے پروردگار تو نے کہا ہے: (وَلَوْ اَنَّھُمْ ءِٰذْ ظَلَمُوا اَنْفُسَھُمْ جَاءُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمْ الرَّسُولَ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّاباً رَحِیْمًا)  اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتےo
اور میں اپنھے گناہوں سے توبہ اور مغفرت کے لیے تیرے نبی ﷺ کے پاس آیا ہوں اور اے نبی ﷺ میں نے اللہ تک پہنچنے کے لیے آپ ﷺ کی طرف رخ کیا ہے کہ جو اللہ میرا اور آپ ﷺ پروردگار ہے تاکہ وہ میرے گناہون کو معاف کردے۔ اگر آپ  کی کوئی حاجت ہے تو آپ قبر رسول ﷺ کو کندھوں کے پیچھے قٓرار دے کر قبلہ رخ ہو جائیں اور دونوں ہاتھوں کو بلند کر کے اپنی حاجت طلب کریں انشاء اللہ آپ کی حاجت پوری ہوگی۔ 
ابن کثیر لکھتے ہیں:
وقولہ: (وَلَوْ اَنَّھُمْ ءِٰذْ ظَلَمُوا اَنْفُسَھُمْ جَاءُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمْ الرَّسُولَ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّاباً رَحِیْمًایرشد تعالی العصاۃ والمذنبین ءٰذا وقع منھم الخطاء والعصیان ان یاتوا ءٰلی الرسول ﷺ فیستغفروا اللہ عندہ، ویساءلوہ ان یستغفر لھم، فئانھم  ءٰذا فعلوا ذلک تاب اللہ علیھم ورحھم و غفرلھم، ولھذا قاللَوَجَدُوا اللہَ تَوَّاباً رَحِیْمًا)
تفسیر ابن کثیر /ج2 / ص 352 / ط: القاھرہ- المکتبۃ التوفیقیۃ
     ارشاد قدرت ہے
اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتےo
اللہ تعالٰی نے خطا کاروں اور گناہ گاروں کو حکم دیا ہےکہ جب ان سے کوئی خطا یا گناہ سرزد ہو تو وہ رسول ﷺ کے پاس آئیں اور رسول ﷺ کے سامنے خدا سے مغفرت طلب کریں اور وہ رسول ﷺ سے بھی درخواست کریں کہ آپ ﷺ ان کے لیے خدا سے مغفرت طلب کریں اگر ان گناہگاروں نے ایسا کیا تو خدا تعالی ان کو معاف کر دے گا اور ان پر رحم کرے گا، اور ان کی بخشش فرمائے گا۔ اسی وجہ سے آیت کے آخر میں ہے: وہ لوگ خدا کو معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا پائیں گے۔ 
    3۔ خود بنیﷺ کی ذات اقدس سے توسل
     
یہ وہ موضوع ہے جس میں اکتلاف شروع ہو جاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کے ذریعے توسل کے منکرین کا کہنا ہے کہ "نبی اکرم ﷺ کو خدا کی بارگاہ میں تقرب اور دعائوں کی قبولیت کے وسیلہ قرار دینا بدعت ہے۔"
 
نبی کریمﷺکی ذات اقدس سے توسل کو بھی ہم تین اقسام میں تقسیم کر سکتے ہیں
1-    
 آپﷺ کے دنیا میں آنے سے پہلے آپﷺ سے توسل
   
حاکم نے مستدرک میں حضرت عمر بن خطاب ے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے۔
قال  رسول اللہ ﷺ:
    لما اقترف  آدم الخطیئۃ قال: یا رب اسالک بحق محمد لما غفرت لی
رسول خدا ﷺ نے فرمایا:
      
جب حضرت آدمؑ سےخطاسرزد ہوئی تو حضرت آدمؑ نے کہا: اے  پروردگار: میں تجھے محمد ﷺ کا واسطہ دے ک سوال کرتا ہوں مجھے معاف ک دے۔
فقال اللہ :   یا آدم، وکیف عرفت محمدا ولم اخلقہ؟
تو اللہ تعالٰی نے فرمایا:
 اے آدمؑ تمھیں کیسے محمد ﷺ کے بارے میں معلوم ہو  گیا جب کہ  میں نے اسے ابھی خلق ہی نہیں کیا؟
قال:  یا رب، لانک لما خلقتنی بیدک و نفخت فی من روحک رفعت راسی                        فرایت علی قوائم العرش مکتوبا لا ءٰلٰہ ءٰلا اللہ محمد رسول اللہ فعلمت                       انک لم تضف ءٰلی اسمک ءٰلا احب الخلق ءٰلیک۔
تو حضرت آدمؑ نے کہااے پروردگار! جب تو نے مجھے خلق کیا اور مریے اندر اپنی روح   پھونکی اور میرے سر کو بلند کیا تو میں نے عرش کے ستونوں پر   ( لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) لکھا ہوا دیکھا تو مجھے معلوم ہو گیا  تو اپنی محبوب ﷺ ترین مخلوق کا نام ہی اپنے نام کے ساتھ لکھتا ہے۔
فقال اللہ: صدقت یا آدم، ءٰنہ لاحب الخلق ءٰلی ادعنی بحقہ فقد غفرت لک ولولامحمد ماخلقتک
تو اللہ تبارک و تعالٰی نے فرمایا:
المستدرک علی الصحیحین للحاکم/ ج3 / ص215/ کتاب: آیات رسول اللہ/ ح4281/ ط:بیروت-دارالفکر
حاکم اس حدیث  کو بیان کنے کے بعد لکھتا ہے کہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے بالکل صحیح ہے۔
اس حدیث کو متقی ھندی نے اپنی کتاب کنزالعمال میں بھی لکھا ہے۔
کنز العمال للمتقی الھندی/ ج11 / ص206 / ط: بیروت - دار الکتب العملیۃ
2-    
 آپﷺ کے دنیا میں آنے کے بعد آپﷺ سے توسل
         
توسل کی یہ قسم مسلمانوں کے نزدیک ثابت ہے اہل سنت کی بہت معتبر سی کتابوں مثلاً نسائی، ترمذی، مسند احمد، مستدرک وغیرہ میں مذکور ہے:
بنی اکرم ﷺ نے خود ایک نابینا کو اپنے توسل سے دعا کرنے کی تعلیم دی اور جب اس نابینا نے رسول خدا ﷺ کے واسطہ سے خدا کے حضور دعا کی تو اس  کو خدا نے شفاء عطا کی۔
امام احمد لکھتے ہیں۔ 
       
ایک نابینا شخص بنی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا: "اے اللہ کے بنی ﷺ آپ میرے لیے خدا سے دعا کریں کہ خدا مجھے شفاء عطا کرے"
تو رسول ﷺ نے فرمایا:
     
اگر تم چاہو تو میں اسے مئوخر کر دیتا ہوں، اور یہ تمہاری آخرت کے لیے افضل ہے، اور اگر تم چاہو تو میں تمہارے لیے دعا کرتا ہوں۔
اس نابینا نے کہا:
     
نہیں آپ ﷺ میرے لیے خدا سے دعا کریں۔
       
تو رسول خدا ﷺ نے اس نابینا کو حکم دیا کہ وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھے اور یہ دعا مانگے: ( اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیرےحضور تیرے  رحمتوں والے بنی محمد ﷺ کا واسطہ دیتا ہوں اے محمد ﷺ میں نے اپنی اس حاجت کے لیے تجھے اپنے پروردگار کے حضو واسطہ قرار دیا ہے پس آپ ﷺ میری حاجت پوری کریں  اور میری اس حاجت کے سلسلہ میں خدا  کی بارگاہ میں شفاعت کریں۔
اس نابینا شخص نے  بار بار اس دعا کو پڑھا  جس سے اس شخص کی آنکھیں  ٹھیک ہو گئیں اور اسے دکھائی دینا شروع ہو گیا؛
مسند احمد بن حنبل/ مسند الشامین/ حدیث عثمان بن حنیف/ ج4/ ص 170/ ح17246/ ط: بیروت-دارالکتب العلمیۃ؛
       
اس روایت کو حاکم نے ذکر کیا ہے اور اس کے بارے میں کہا ہے کہ یہ روایت صحیح الاسناد ہے اور اس کا بخاری اور مسلم نے اخراج نہیں کیا ہے۔
3-
آپﷺ کے دنیا سے چلے جانے کے بعد آپﷺ سے توسل
  
صحابہ کرام اور تابعین کے بارے میں منقول واقعات سے یہ بات ثابت ہے کہ بنی کریم ﷺ کی وفات کےبعد بھی آپ ﷺ  سے توسل جائز ہے اس سلسلہ میں تاریخی کتابوں میں بہت سے واقعات اور روایات درج ہیں۔
طبرانی لکھتے ہیں:
       
ترجمہ: ابی اماہ بن سھل بن حفیف اپنے چچا عثمان بن حیف سے نقل کرتے ہے کہ ایک آدمی حضرت عثمان بن عفان کے پاس اپنی حاجت کے سلسلہ میں کئی بار آیا لیکن حضرت عثمان نے اس آدمی کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور جہ ہی اس کی حاجت کے بارے میں کبھی غور کیا۔ وہ آدمی عثمان بن حنیف سے ملا ور  اس کو خلیفہ کے رویہ کی شکایت کی۔ تو عثمان بن حنیف نے اس آدمی سے کہا: وضو  خانہ میں جا کروضو کرو او پھر مسجد میں آکر دو رکعت نماز  ادا کرو او اس کے بعد یہ کہو: اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تجھے تیرے رحمتوں والے نبی محمد ﷺ کا واسطہ دیتا ہوں ، اے محمد ﷺ مین تیرے پروردگار کی بارگاہ مین تیری طرف رخ کیے ہوئے ہوں تاکہ وہ میری حاجت کو پورا کرے۔
     
پس وہ آدمی گیا اور عثمان بن حنیف نے فیسا کہا تھا ویسا ہی کیا پھر مسجد کے دروازے کے پاس ایا تودربان آیا اور اس شخص کا ہاتھ پکڑ کر حضرت عثمان بن عفان کے پاس لے آیا، خلیفہ ثالث نے اس آدمی کو اپنے ساتھ چٹائی پر بٹھایا،اور کہا: تمہاری کیا واجت ہے؟ تو اس آدمی نے اپنی حاجت بیان کی اور خلیفہ ثالث نے اس کی حاجت پوری کر دی اور کہا مجھے تمہاری حاجت بھول گئی تھی پس ابھی کجھ کو تمہاری حاجت یاد آئی ہے اور آئندہ جب بھی تمہیں کوئی حاجت در پیش ہو میرے پاس آجانا۔
 
پھر وہ آدمی خلیفہ کے پاس سے اٹھ کر آیا تو اس کی ملاقات عثمان بن حنیف سے ہوگئی، اس آدمی نے عثمان بن حنیف سے کہا: "خدا تمہیں جزائے خیر عطا کرے، خلیفہ تو میری حاجت کے بارے میں سوچتا ہی نہیں تھا اور نہ ہی میری طرف متوجہ ہوتا تھا یہاں تک کہ تم نے اس سے میرے بارے میں بات کی،  تو عثمان بن حنیف نے کہا: خدا کی قسم میں نے خلیفہ سے کوئی بات نہیں کی، ہاں البتہ میں نے دیکھا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک نابینا شخص آیا تھا اور اس نے۔۔۔۔۔۔۔۔الخیر
المعجم الصغیر للطبانی/ ج1/ ص184/ من اسمہ طی/ ط: بیروت-دار الکتب العلمیۃ
از انبیائ و اولیاء علیہ السلام سے توسل اور شفاعت

تحریر و تحقیق یونٹ شعبہ نشرواشاعت روضہ مبارک حضرت عباسؑ

No comments:

Post a Comment