RBD-01

 

https://rbroz.blogspot.com/

اہل بیتؑ

محبت اہل بیت علیھم السلام
قرآن کریم میں ارشاد ہوا:
قُلۤ لَآ اَسۤئَلُکُم عَلَیۤہِ اَجرًا اِلٓا المَوَدَٓۃَ فِی القُربٰی
کہہ دو میں تم سے اپنے قُربٰی سے محبت کے سوا کسی اجرت کا طلب گر نہیں ہوں۔ 
                                    (سورۃ شورٰی آیت 23)

ایک شخص حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا ۔
عرض کیا:       میں آپ اہل بیتؑ کے شیعوں سے ہوں او پھر اپنی تنگدستی اور فقر کی
شکایت کی۔
آپؑ نے فرمایا:  یہ کیسے ہو سکتا ہے تو ہمارا شیعہ اور محب بھی ہواور اپنے آپ کو فقیر بھی سمجھتا ہو۔ جب کہ ہمارے سب شیعہ بہت بڑے ثروت مند ہوتے ہیں۔ تیرے لیے ایک ایسی نفع بخش تجارت اللہ تعالٰی نے قرار دی ہے جو بہت زیادہ منفعت والی ہے۔
اس شخص نے پوچھا:           مولا! وہ تجارت کونسی تجارت ہے؟
آپؑ نے فرمایا:      اگر آپ سے کوئی ثروت مند کہے کہ اس ساری دھرتی کو تیرے لیے چاندی سے بھر دیتے ہیں تم ولایت اہل بیتؑ سے دستبردار ہو جائو اور ان کی محبت اپنے دل سے نکال دو اور ان کے دشمنان کی محبت و دوستی اپنے دل میں ڈال لو تو کیا ایسا کرنے کو تیار ہو جائو گے۔
اس شخص نے عرض کیا:       نہ اے فرزند رسول خدا۔ بلکہ اگرپوری دنیا کو سونےسے بھر کر کوئی مجھ سے ایسا مطالبہ کرے تو بھی مین اس کا مطالبہ مسترد کر دوں گا۔
آپؑ نے فرمایا:      دیکھا میں کہتا ہوں آپ فقیر نہیں ہیں۔ بے نوا تووہ ہوتے ہیں جن کے پاس یہ خزانہ جو آپ کے پاس ہے نہ ہو۔
پھر آپؑ نے کچھ مقدار مال اسے عطا فرمایا۔ اور وہ رخصت لے کر چل دیا۔
موضوعی داستان از کاظم سعید پور۔ ص187/

حضرت رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ رَزَقَہٗ اللہٗ حٗبَّ الْاَئِمَّۃِ مِنْ اَھْلِ بَیْتِی فَقَدْ طَابَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ۔
جسے اللہ تعالٰی نے میرے اہل بیتؑ کے ائمہؑ کی محبت عطا فرمائی اسے دنیا و آخرت کی خیر ملی۔   میزان الحکمۃ 3202
علامہ مجلسیؒ نے امام جعفر صادقؑ یا امام محمد باقرؑ سے صحیح سند سے روایت کیا ہے۔ مومن کی وفات کے بعد اس کی قبر میں چھ تصویریں داخل ہوتی ہیں۔ جن میں سے ایک سب سے خوبصورت ہوتی ہے۔ جس کی خوشبو انتہائی پاکیزہ اور حالت اعلٰی ہوتی ہے۔ وہ تصویریں ترتیب کے ساتھ دائیں بائیں سامنے سر کے اوپر کھڑی ہوتی ہے۔ جونہی کوئی مشکل یا عذاب اس مردے کا رخ کرتی ہے تو جس طرف سے آمد ہوتی ہے اس طرف والی تصویر اس کا دفاع کرتی ہے۔ سر کی جانب والی خوبصورت تصویر باقی تصویر سے مخاطب ہو کر ان سے پوچھتی ہے:
خداوند متعال آپ کو جزائے خیر دے تم کون ہو؟
دائیں جانب والی تصویر جواب دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نماز ہوں۔
بائیں طرف والی کہتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں زکوٰۃ ہوں۔
سامنے والی کہتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں روزہ ہوں۔
سر کے پیچھے والی کہتی ہے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حج و عمرہ ہوں۔
جو پائوں کی جانب ہوتی ہے کہتی ہے میں اس کے اپنے بھائی مومن کے ساتھ نیکی و احسانات ہوں۔
پھر یہ سب تصویریں مل کر اس خوبصورت تصویر سے سوال کرتی ہیں۔
آپ کون ہیں؟ آپ تو ہم سے بہت زیادہ پاکیزہ معطر و زیبا ہیں؟
وہ تصویر جواب دیتی ہے۔ میں ولایت آل محمد علیھم السلام ہوں۔
(بحار الانوار/ موضوعی داستان از کاظم سعید پور۔ ص188/

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

الْزِمُوْا مِوَدَّتَنَا اَھْلَ الْبَیْتِ
ہم اہل بیتؑ کی محبت پر ہمیشہ قائم رہو۔
                                                   (میزان الحکمۃ ص 3202
ایک شخص ساری زندگی فسق و فجور میں گزار کر مر گیا۔ بنی اسرائیل نے اسے اٹھا کر ایک کوڑے دان میں پھینگ دیا۔ خداوند متعال نے حضرت موسٰیؑ کو حکم دیا جاکر اسے اٹھائو اور غسل و کفن دے کر دفن کرو۔
     حضرت موسٰیؑ نے اپنے رب سے اس عزت و احترام و اکرام کا سبب دریافت کیا ارشاد ہوا: اس لیے کہ اس نےایک دن حضرت محمدﷺ کے بارے میں تورات میں آپﷺ کے فضائل دیکھے تو اس کے دل میں میرے حبیبﷺ کی محبت پیدا ہوگئی۔ پھر اس نے اس صفحہ کو اپنے منہ پر لگا کر چوم لیا تھا۔ میں نے اس کے اسی لیے سارے گناہ بخش دیے ہیں۔
             

 موضوعی داستان از کاظم سعید پور۔ ص189/


عشق ولایت:
                جب جناب حجر بن عدی اپنے دوسرے چھ ساتھیوں کے ساتھ گرفتار ہو کر جلاد کے سامنے آئے اور ان کی شہادت کا وقت قریب آگیا تو انھوں نے
جلاد سے فرمایا:       اگر آپ میرے بیٹے ہمام کو بھی قتل کرنا چاہتے ہیں تو میری                              خواہش ہے پہلے اسے قتل کریں۔
جلاد نے پوچھا:        اس کی وجہ کیا ہے۔ آپ اس قسم کی خواہش کیوں کر تے ہیں؟
آپ نے فرمایا:          مجھے اس بات کا خوف ہے کہ کہیں وہ میری گردن پر چلتی                                تلوار دیکھ کر اس کے خوف سے ولایت علیؑ بن ابی طالبؑ  سے دستبردار نہ ہو جائے۔
      حجر بن عدی حضرت رسول اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔
آپﷺ نے فرمایا تھا:    تم علیؑ کی دوستی کی وجہ سے قتل کیے جائو گے۔ اور  جونہی تیرا سر گردن سے جدا ہر زمین پر گرے گا زمین  سے پانی کا ایک چشمہ جاری ہوگا جو تیرے خون آلودہ سر کو دھو ڈالے گا؛
اور پھر اسی طرح ہی ہوا کہ ان کی شہادت کے وقت جب ان کے سر تن سے جدا ہو کر زمین پر گرا تو پانی کا ایک چشمہ زمین سے ابلا اور اس کے سر مطہر کو دھو ڈالا۔

ابن سکیت اور محبت اہل بیتؑ:
         عربی ادب کی دنیا مین ایک معرف نام رکھنے والے عالم ابن سکیت گزرے ہیں جن کا نام عربی زبان کے صاحبِ نظر لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ متوکل عباسی کی خلافت کے زمانہ میں زندگی بسر کرتے تھے۔ حکومتی لابی کی نظروں میں شیعہ علیؑ ابن ابی طالبؑ شمار ہوتے تھے۔ ان کے علم و فضل کی عمومی شہرت کے مدِ نظر متوکل نے انھیں  اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے اپنے پاس اتاشی رکھا ہوا تھا۔
              ایک دن متوکل کے بچے اس کے پاس آئے جب ابن سکیت بھی وہاں موجود تھے۔ ابن  سکیت نے اس دن ان کا امتحان لینا تھا۔ بچوں نے سوالات کے خوب جواب دیے۔ متوکل نے ابن سکیت سے اظہارِ خرسندی و رجایت کیا۔ اور اپنے سابقہ خیال کے مدِ نظر جو اس کے ذہن میں ابن سکیت کے شیعہ ہونے کے بارے تھا؛ اس سے آزمائش  کے لیے سوال کیا:
               میرے یہ دو فرزند آپ کو زیادہ محبوب ہیں یا حسنؑ و حسینؑ فرزندانِ علیؑ ۔ ابن سکیت اس تقابل سے بہت برہم ہوئے اور دل ہی دل میں کہا: یہ مغرور شخص اپنے خیال و غرور میں کہاں تک جا پہنچا ہے؟
              شاید یہ میری غلطی ہے کہ میں نے اس کے بچوں کو اس قدر زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ 
ابن سکیت نے فوراً برجستہ جواب دیا: آپ کا خیال اپنے پاس ۔ لیکن میرے خیال میں حضرت علیؑ کا غلام قنبرؒ بھی ان دونوں کے باپ اور ان دونوں سے کہیں بہتر ہے۔ 
متوکل نے اس محفل میں جلاد کو بلوا کر ابن سکیت کی زبان گدی، پسِ گردن سے نکلوا دی۔

موضوعی داستان از کاظم سعید پور۔ ص190/

No comments:

Post a Comment