(۱)
مدینہ سے بصرہ کی جانب روانہ ہوتے ہوئے اہل کوفہ کے نام تحریر فرمایا:
خدا کے بندے علی امیر المومنین ؈ کی طرف سے اہل کوفہ کے نام جو مددگاروں میں سر بر آوردہ اور قومِ عرب میں بلند نام ہیں۔
میں عثمان کے معاملہ سے تمہیں اس طرح آگاہ کئے دیتا ہوں کہ سننے اور دیکھنے میں کوئی فرق نہ رہے۔ لوگوں نے ان پر اعتراضات کئے تو مہاجرین میں سے ایک میں ایسا تھا جو زیادہ سے زیادہ کوشش کرتا تھا کہ ان کی مرضی کے خلاف کوئی بات نہ ہو اور شکوہ شکایت بہت کم کرتا تھا۔ البتہ ان کے بارے میں طلحہ و زبیر کی ہلکی سے ہلکی رفتار بھی تند و تیز تھی اور نرم سے نرم آواز بھی سختی و درشتی لئے ہوئے تھی اور ان پر عائشہ کو بھی بےتحاشہ غصہ تھا۔ چنانچہ ایک گروہ آمادہ ہو گیا اور اس نے انہیں قتل کر دیا اور لوگوں نے میری بیعت کر لی۔ اس طرح کہ نہ ان پر کوئی زبردستی تھی اور نہ انہیں مجبور کیا گیا تھا، بلکہ انہوں نے رغبت و اختیار سے ایسا کیا۔
خدا کے بندے علی امیر المومنین ؈ کی طرف سے اہل کوفہ کے نام جو مددگاروں میں سر بر آوردہ اور قومِ عرب میں بلند نام ہیں۔
میں عثمان کے معاملہ سے تمہیں اس طرح آگاہ کئے دیتا ہوں کہ سننے اور دیکھنے میں کوئی فرق نہ رہے۔ لوگوں نے ان پر اعتراضات کئے تو مہاجرین میں سے ایک میں ایسا تھا جو زیادہ سے زیادہ کوشش کرتا تھا کہ ان کی مرضی کے خلاف کوئی بات نہ ہو اور شکوہ شکایت بہت کم کرتا تھا۔ البتہ ان کے بارے میں طلحہ و زبیر کی ہلکی سے ہلکی رفتار بھی تند و تیز تھی اور نرم سے نرم آواز بھی سختی و درشتی لئے ہوئے تھی اور ان پر عائشہ کو بھی بےتحاشہ غصہ تھا۔ چنانچہ ایک گروہ آمادہ ہو گیا اور اس نے انہیں قتل کر دیا اور لوگوں نے میری بیعت کر لی۔ اس طرح کہ نہ ان پر کوئی زبردستی تھی اور نہ انہیں مجبور کیا گیا تھا، بلکہ انہوں نے رغبت و اختیار سے ایسا کیا۔
While proceeding from Medina towards Basra, the following letter was written by the people of Kufa:
"In the name of Allah. To the people of Kufa, from Ali ibn Abi Talib, Commander of the Faithful. Those individuals of Kufa who have risen to aid and are renowned among the Arab nation, may God's servants be upon them.
Regarding the matter of Uthman, I inform you in such a manner that there remains no difference between hearing and seeing. When people raised objections against him, among the immigrants was one who put in the utmost effort to prevent any outcry against their will, and he lessened complaints and protests. However, concerning them, both Talha and Zubair were hastening with light footsteps, their voices were gentle to the extent of tenderness, yet filled with firmness and rigor, and Aisha also harbored an uncalculated anger against them. Consequently, a group emerged, attacked and killed them, and people pledged allegiance to me. In this manner, they were neither coerced nor compelled, but rather, they did so willingly and voluntarily."
Note: This translation attempts to capture the essence of the original text while conveying the meaning in English. Keep in mind that translations can sometimes lose some nuances and cultural context.
No comments:
Post a Comment