احکامِ تقلید:
مسئلہ (۱)
ہرمسلمان کے لئے اصول دین کوازروئے بصیرت جاننا
ضروری ہے کیونکہ اصول دین میں کسی طورپربھی تقلید نہیں کی جاسکتی یعنی یہ نہیں
ہوسکتاکہ کوئی شخص اصول دین میں کسی کی بات صرف اس وجہ سے مانے کہ وہ ان اصول
کوجانتاہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اسلام کے بنیادی عقائد پریقین رکھتاہواور اس کااظہار
کرتاہو(اگرچہ یہ اظہار ازروئے بصیرت نہ ہو)تب بھی وہ مسلمان اور مومن ہے۔ لہٰذا اس
مسلمان پر ایمان اور اسلام کے تمام احکام جاری ہوں گے،لیکن (مسلّمات
دین)کوچھوڑکرباقی دینی احکامات میں ضروری ہے کہ انسان یاتوخود مجتہدہویعنی احکام
کودلیل کے ذریعے حاصل کرے یاکسی مجتہد کی تقلید کرے یاازراہ احتیاط اپنافریضہ یوں
اداکرے کہ اسے یقین ہو جائے کہ اس نے اپنی شرعی ذمہ داری پوری کردی ہے۔
مثلاًاگرچند مجتہد کسی عمل کو حرام قرار دیں اور چنددوسرے کہیں کہ حرام نہیں ہے
تواس عمل کوانجام نہ دے اور اگربعض مجتہد کسی عمل کو واجب اور بعض مستحب کہیں
تواسے بجالائے۔لہٰذاجو افراد خود مجتہدنہیں ہیں اور نہ ہی احتیاط پرعمل کرسکتے ہیں
توان پرواجب ہے کہ کسی مجتہد کی تقلید کریں ۔
مسئلہ (۲)
دینی احکام میں تقلید
یعنی کسی مجتہد کے فتوے پر عمل کرنا۔اوریہ ضروری ہے کہ جس مجتہد کی تقلید کی جائے
وہ مرد، بالغ، عاقل، شیعہ اثنا عشری، حلال زادہ، زندہ اور عادل ہو،اور عادل وہ شخص
ہے جواپنے اوپر تمام واجب شدہ کاموں کو بجا لائے اورحرام شدہ کاموں کوترک کرے۔
عادل ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ بظاہر ایک اچھاشخص ہواور اس کے اہل محلہ یاہمسایوں
یاہم نشینوں سے اس کے بارے میں دریافت کیاجائے تووہ اس کی اچھائی کی تصدیق کریں ۔ اگریہ
بات(اگرچہ اجمالاً)معلوم ہوکہ درپیش مسائل میں مجتہدین کے فتوے ایک دوسرے سے مختلف
ہیں توضروری ہے کہ اس مجتہدکی تقلید کی جائے جو ’’اعلم‘‘ ہویعنی اپنے زمانے کے
دوسرے مجتہدوں کے مقابلے میں احکام الٰہی کوسمجھنے میں سب سے بہتر صلاحیت رکھتا
ہو۔
مسئلہ (۳)
مجتہد اوراعلم کی شناخت تین طریقوں سے ممکن ہے:
1.
اول یہ کہ انسان کو خود یقین ہو جائے کہ فلاں
شخص مجتہدیااعلم ہے مثلاًوہ خود اہل علم ہو اورمجتہد اور اعلم کوپہچاننے کی صلاحیت
رکھتا ہو۔
2.
دوایسے اشخاص جوخود عالم اور عادل ہوں نیز مجتہد
اور اعلم کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہوں ، کسی کے مجتہد یااعلم ہونے کی تصدیق
کریں ،بشرطیکہ دودوسرے عالم اور عادل ان کی تردید نہ کریں اور بظاہر کسی کامجتہد
یااعلم ہوناایک قابل اعتماداہل خبرہ(ماہر صاحب علم) شخص کے قول سے بھی ثابت ہو
جاتا ہے۔
3.
کوئی شخص عاقلانہ روش کے تحت کسی فردکے اجتہاد
یا اعلمیت کے بارےمیں مطمئن ہوجائے مثلاً کچھ اہل علم جومجتہد اور اعلم کوپہچاننے
کی صلاحیت رکھتے ہوں ،کسی کے مجتہد یااعلم ہونے کی تصدیق کریں اور ان کی تصدیق سے
انسان مطمئن ہو جائے۔
مسئلہ (۴)
کسی مجتہد کافتویٰ حاصل کرنے کے چار طریقے ہیں :
(اول:) خود مجتہد سے (اس کافتویٰ) سننا۔
(دوم:): ایسے دوعادل اشخاص
سے سنناجومجتہد کافتویٰ بیان کریں ۔
(سوم:) مجتہد کافتویٰ کسی ایسے شخص سے سنناجس کے قول پراطمینان ہو۔
(چہارم:) مجتہد کی کتاب
(مثلاً توضیح المسائل) میں پڑھنابشرطیکہ اس کتاب کی صحت کے بارے میں اطمینان ہو۔
مسئلہ (۵)
جب تک انسان کویہ یقین
نہ ہوجائے کہ مجتہد کافتویٰ بدل چکاہے وہ کتاب میں لکھے ہوئے فتوے پرعمل کرسکتاہے
اوراگرفتوے کے بدل جانے کا احتمال ہوتوتحقیق کرناضروری نہیں ۔
مسئلہ (۶)
اگرمجتہد اعلم کوئی
فتویٰ دے تواس کامقلد اس مسئلے کے بارے میں کسی دوسرے مجتہد کے فتوے پرعمل نہیں
کرسکتا۔ تاہم اگروہ (یعنی مجتہد اعلم) فتویٰ نہ دے بلکہ یہ کہے کہ احتیاط اس میں
ہے کہ یوں عمل کیاجائے، مثلاً احتیاط اس میں ہے کہ نماز کی پہلی اور دوسری رکعت
میں سورئہ الحمد کے بعد ایک بار پورا سورہ پڑھے تومقلد کو چاہئے کہ یا تواس احتیاط
پر، جسے احتیاط واجب کہتے ہیں ، عمل کرے یااعلم فالاعلم کی رعایت کے ساتھ دوسرے
مجتہد کے فتوے پر عمل کرے ۔پس اگروہ (یعنی دوسرا مجتہد) فقط سورۂ الحمد کوکافی
سمجھتاہوتودوسراسورہ ترک کیا جاسکتا ہے۔ جب مجتہد اعلم کسی مسئلے کے بارے میں کہے
کہ محل تامل یامحل اشکال ہے تواس کابھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ (۷)
اگرمجتہد اعلم کسی مسئلے کے بارے میں فتویٰ دینے کے بعدیااس سے
پہلے احتیاط لگائے مثلاً یہ کہے کہ: نجس برتن کرپانی میں ایک مرتبہ دھونے سے پاک
ہوجاتا ہے اگرچہ احتیاط اس میں ہے کہ تین مرتبہ دھوئے تومقلدایسی احتیاط کوترک کر
سکتاہے۔ اس قسم کی احتیاط کواحتیاط مستحب کہتے ہیں ۔
مسئلہ (۸)
اگروہ مجتہد جس کی ایک شخص تقلید کرتاہے فوت
ہوجائے توجو حکم اس کی زندگی میں تھاوہی حکم اس کی وفات کے بعد بھی ہے۔ بنابریں
اگرمرحوم مجتہد، زندہ مجتہد کے مقابلے میں اعلم تھاتووہ شخص جسے درپیش مسائل میں
دونوں مجتہدین کے مابین اختلاف کااگرچہ اجمالی طورپرعلم ہواس کےلئے مرحوم مجتہد کی
تقلیدپرباقی رہناضروری ہے اور اگر زندہ مجتہد اعلم ہوتوپھرزندہ مجتہد کی طرف رجوع
کرناضروری ہے اوراگر ان کے درمیان کسی کی اعلمیت معلوم نہ ہو یا مساوی ہوں پس اُن
میں سے جس کا زیادہ صاحب تقویٰ ہونا ثابت ہو یعنی فتویٰ دینے میں زیادہ احتیاط
کرتا ہو تو اس کی تقلید کرنی چاہئیے۔ اور اگر ثابت نہ ہو تو کسی بھی اعلم کے فتویٰ
کے مطابق اپنے عمل کو قرار دینے میں اختیار ہوگا سوائے علم اجمالی کے مقام میں یا
اس تکلیف کے سلسلے میں اجمالی دلیل کے قائم ہونے کے مقام میں (جیسے نماز میں قصر و
تمام کا اختلاف) تو ایسی صورت میں احتیاط واجب کی بنا پر دونوں فتووں کی رعایت
کرنا ضروری ہے۔اس مسئلے میں تقلید سے مراد معین مجتہد کے فتوے کی پیروی کرنے (قصد
رجوع) کوصرف اپنے لئے لازم قرار دیناہے نہ کہ اس کے حکم کے مطابق عمل کرنا۔
مسئلہ (۹)
مکلف کےلئے ضروری ہے کہ جن مسائل کےبارے میں احتمال دیتا ہو کہ نہ
سیکھنے کی بنا پر معصیت(یعنی ترکِ واجب یا فعل حرام) میں گرفتار ہوجائے گا تو اسے
سیکھنا ضروری ہے۔
مسئلہ (۱۰)
اگرکسی شخص کوکوئی ایسامسئلہ پیش آئے جس کاحکم
اسے معلوم نہ ہو تو لازم ہے کہ احتیاط کرے یا ان شرائط کے مطابق تقلید کرے جن
کاذکر اوپر آچکاہے، لیکن اگر اس مسئلے میں اسے اعلم کے فتوے کاعلم نہ ہوتو اعلم
فالاعلم کی رعایت کے ساتھ غیر اعلم کی تقلید کرنا جائز ہے۔
مسئلہ (۱۱)
اگرکوئی شخص مجتہد کافتوی کسی دوسرے شخص کوبتائے، لیکن مجتہد نے
اپناسابقہ فتویٰ بدل دیاہوتو اس کے لئے دوسرے شخص کو فتوے کی تبدیلی کی اطلاع دینا
ضروری نہیں ۔ لیکن اگرفتویٰ بتانے کے بعد یہ محسوس ہو کہ (شایدفتویٰ بتانے میں )
غلطی ہو گئی ہے اوراگراندیشہ ہوکہ اس اطلاع کی وجہ سے وہ شخص اپنے شرعی وظیفے کے
خلاف کرے گاتو(احتیاط لازم کی بناپر) جہاں تک ہوسکے اس غلطی کاازالہ کرے۔
مسئلہ (۱۲)
اگرکوئی مکلف ایک مدت تک کسی کی تقلید کئے بغیر
اعمال بجالاتا رہے،اگر اس کا عمل واقعیت کے مطابق تھا یاجس کی ابھی تقلید کررہا ہے
اس مجتہد کے فتویٰ کے مطابق تھا تو صحیح ہے۔ اس کے علاوہ دوسری صورت میں اگر جاہل
قاصر تھا اور عمل میں نقص، ارکان وغیرہ میں نہیں تھا تو عمل صحیح ہے اسی طرح (عمل
صحیح ہے) اگر جاہل مقصر تھا اور عمل کا نقص اس طرح کاتھا کہ جاہل ہونے کی صورت میں
عمل صحیح مانا جاتاہے (جیسے اخفات کی جگہ جہر سے پڑھنا یا برعکس) یا اسی طرح (عمل
صحیح ہے) اگر گذشتہ ان اعمال کی کیفیت کے بارے میں نہ جانتا ہوجو صحیح ہونے کا حکم
رکھتے ہیں سوائے ان مقامات کے جن کاذکر منہاج الصالحین میں ہواہے۔
No comments:
Post a Comment