RBD-01

 

https://rbroz.blogspot.com/

Tuesday, 17 April 2018

علم فقہ

علم فقہ:
                            شرعی احکام کے علم کو "علم فقہ" کہتے ہیں او اسی مناسبت سے شرعی احکام کا دوسرا نام "احکام فقہیہ" ہے۔ علم فقہ کے مطابق ہمارا کوئی بھی عملی کام احکام فقھیہ سے ہٹ کر نہیں ہے۔ ہم جو بھی فعل انجام دیں یا تو وہ واجب ہوگا یا حرام، یا مستحب یا مکروہ، اور یا مباح۔
اللہ تعالٰی کی ذات جب اپنے بندوں کو کوئی حکم دیتی ہے تو اس کی پانچ قسمیں ہوتی ہیں۔
1۔ واجب          2۔ حرام    3۔ مستحب/سنت        4۔ مکروہ    5۔ مباح
1۔  واجب:
        واجب کا مطلب ہے"لازمی" یعنی اللہ تعالٰی نے جس کام کو انسانوں پر ضروری قرار دیا ہو اس کو واجب کہتے ہیں۔ مثلاً نماز ، روزہ، والدین کا احترام
اگر ہم واجب کام کریں تو اللہ خوش ہوگا اور ہمیں ثواب ملیں گے۔ اور اگر ہم واجب کام نہیں کریں گےتو اللہ ناراض ہوگا اور ہمیں  سزا ملے گی۔
2۔ حرام:
        حرام کا مطلب ہے ایسا کام جس کو ترک کرنا ضروری ہے۔ وگرنہ اللہ تعالٰی ناراض ہوتا ہے۔ مثلاً گالیاں دینا ، چوری کرنا، گانے سننا
اگر ہم حرام کام کریں گے تو اللہ ناراض ہوگا اور ہمیں سزا ملے گی۔ اور اگر ہم حرام کام نہ کریں اس سے اجتناب کریں گے تو اللہ خوش ہوگا اور ہمیں ثواب ملےگا۔
3۔ مستحب یا سنت:
        مستحب یا سنت کا مطلب ہے"پسندیدہ کام" یعنی ایسا کام جسے کرنے سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ خوش ہوتے ہوں۔ لیکن اگر یہ کام نہ کریں تو گناہ نہیں ہوتا۔ لیکن اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہمیں مستحب یا سنت کام کرنا چاہیے۔
 مثلاً قرآن پاک کی تلاوت کرنا۔ بیمار کی عیادت کرنا۔ ہر وقت وضو میں رہنا۔
اگر ہم سنت کام انجام دیں گے تو اللہ خوش ہوگا اور ہمیں ثواب ملے گا۔ اور اگر ہم سنت کام انجام نہ دیں تو گناہ نہیں لیکن ہم اللہ کی خوشنودی اور ثواب سے محروم ہو جائیں گے۔
4۔ مکروہ:
        مکروہ کا مطلب ہے" ناپسندیدہ" یعنی ایسا کام جس کو اللہ تبارک تعالٰی پسند نہیں کرتا۔ ہمارے لیے ایسے کام سے بچنا بہتر ہے۔
مثلاً بائیں ہاتھ سے کھانا کھانا۔ صبح دیر تک سوتے رہنا۔ مسجد میں دنیاوی باتیں کرنا
اگر ہم مکروہ کام کریں گے تو گناہ نہیں  لیکن ہم اللہ کی خوشنودی اور ثواب سے محروم ہو جائیں گے۔ اور اگر مکروہ کام نہ کریں تو اللہ خوش ہوگا اور ہمیں ثواب ملے گا۔
5۔ مباح:
        مباح کا مطلب ہے "وہ کام جس کو کرنے کی اجازت دی گئی ہو۔ مباح کام کرنے سے نہ ثواب حاصل ہوتا ہے نہ ہی گناہ ہوتا ہے۔
مثلاً کھانا پینا۔ سونا
اگر ہم مباح کام کریں گے تو نہ ثواب ہوگا نہ گناہ اور اگر مباح کام نہ کریں گے تو بھی نہ ثواب ہو گا اور نہ گناہ۔
نوٹ:
حدیث شریف میں ہے ؛
انما الاعمال بالنیت         "اعمال کا دارو مدار نیت پر ہوتا ہے۔"
اگر کوئی انسان مباح کام اللہ کی خوشنودی کے لیے کرے تو اسے ثواب بھی حاصل ہو سکتا ہے۔ مثلاً کھانا اس نیت سے کھائے کہ اس سے اس کا جسم طاقتور ہوگا اور وہ اچھی طرح اللہ کی عبادت کرے گا۔ تو اسے کھانا کھانے کا بھی ثواب حاصل ہوگا۔
        فقہی احکام کی اہمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں چاہیے کہ معرفت خدا، و دیگر اصول دین سے آگاہی اور ان پر ایمان راسخ کے ساتھ ساتھ ان فقہی مسائل کو اچھی طرح سے سیکھیں اور ان پر عمل پیرا ہوں۔ کیونکہ اگر ہم احکامات خداوندی کو بجا لائیں لیکن غلط طور پر تو اس کا فائدے کی بجائے نقصان ہوگا۔ یعنی ثواب کی بجائے گناہ ہوگا۔ اس لئے علم فقہ یعنی احکامات شرعیہ کو جاننے اورانہیں درست سمجھنے کی بہت ضرورت و اہمیت ہے۔ یہ احکام ایک طرف تو ہمیں عبادات کو درست اور صحیح طریقے سے انجام دینےکا طریقہ سکھاتے ہیں۔ اور دوسری طرف دیگر انفرادی اور اجتماعی امور مین  اسکلامی تعلیمات کے مطابق معاملات طے کرنے اور درست اسلامی زندگی گزارنے کی راہ متعین کرتے ہیں۔
        دین اسلام کی رو سے ایک عام انسان پرفقہی احکام اس کے بالغ ہونے پر لاگو ہوتے ہیں۔ یعنی ایک غیر بالغ بچے یا بچی پر کوئی فقہی حکم لاگو نہیں ہوتا۔
        بالغ سے مراد انسان اک اپنی عمر کے اس حصے تک پہنچنا ہے جس میں اس کی سمجھ بوجھ پختہ ہو جائے۔ دین اسلام کے مطابق لرکا پندرہ(15) قمری سال مکمل ہونے پر جبکہ لڑکی نو(09)قمری سال مکمل ہونے پر بالغ تصور کئے جاتے ہیں۔


ماخوذ: اسلامی تعلیمات کا نصاب، نور الہدیٰ مرکز تحقیقات


No comments:

Post a Comment