RBD-01

 

https://rbroz.blogspot.com/

توحید کی اقسام

توحید  کی اقسام

توحید کو سمجھنے کے لیے اس کی بحث کو کئی قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جن میں سے چار اہم اقسام درج ذیل ہیں۔ 

توحید ذات


                یعنی اس کی ذات واحد ہے، کوئی اس کی مانند نہیں ہے۔ لَیسَ کَمِثلِہِ شَئ وہ کسی کا محتاج نہیں اور نہ اس کی کوئی اولاد ہے۔ کوئی اس کی برابری یا ہمسری نہیں کر سکتا۔ حضرت امیرالمو منینؑ نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں۔ 
                 لوکان لربک شریک لاتتک رسلہ:
  یعنی "اگر تمہارے پروردگار کا کوئی شریک ہوتا تو اس کی جانب سے بھی کوئی رسول تمہارے پاس آتے!"
                جب کسی اور کی طرف سے کوئی آیا ہی نہیں تو ثابت ہوا کہ خدا وحدہ لا شریک ہے۔ 

توحید صفات

                     علم، قدرت، ازلیت ، ابدیت، خالقیت، رزاقیت اور دیگر بیشمار صفات جو اللہ کی ذات میں ہین یہ سب اس کی عین ذات ہیں ۔ مخلوقات ان کی ذات سے جدا ہوتی ہیں۔ جب اللہ کے علاوہ کسی کی صفت ذاتی نہیں ہے تو اللہ صفات کے اعتبار سے بھی وحدہ لا شریک ہے۔

                                             صفات ِ ثبوتیہ

محمد و آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں کچھ صفات وہ ہیں جو اللہ تعالٰی کی ذات میں پائی جاتی ہیں اور وہ اللہ تعالٰی ہی کیلئے مخصوص ہیں اس کے علاوہ کسی میں نہیں پائی جا سکتیں۔ انہیں صفات ثبوتیہ کہتے ہیں۔ جو کہ مندرجہ ذیل آٹھ ہیں۔ 

          عالم و قادر و حی است و مرید و مدرک  
                 ہم قدیم و ازلی پس متکلم و صادق
1.حی:        یعنی خدا زندہ ہے ۔ اور زندہ اسے کہا جا سکتا ہے۔ جو علم رکھتا ہو اور قدرت بھی۔ چونکہ خدا "عالم " بھی            ہے اور "قادر "بھی اس بنائ پر وہ زندہ بھی ہے۔    
                                                                                             (از اصول عقائد: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی)          اللہ تعالٰی ہی ہے جو ذاتی طور پر زندگی کا مالک ہے۔ ہر وجود زندہ ہونے اور زندہ ہونے او اندہ رہنے کیلئے         اللہ کا محتاج ہے۔   (ازکتاب دین شناسی)
2. قادر:      اللہ تعالٰی ہر شے پر  مکمل قدرت رکھتا ہے۔اور اس کی قدرت میں کبھی بال برابر کمی واقع نہیں ہو سکتی           اور نہ یہ ہے کہ اللہ کسی کو اس کائنات کا اختیار دے کر خود بے اختیار ہو گیا ہو۔
3. قدیم       یعی پروردگار عالم ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔ وہ ازلی اور ابدی ہے۔
4. عالم       اللہ تعالٰی ہر چیز کا ذاتی طور پر علم رکھتا ہے اس کے علاوہ کسی کا علم ذاتی نہیں۔
5. متکلم:     وہ جس چیز کو چاہے بولنے کی طاقت عطا کر سکتا ہے۔ جیسے حضرت موسٰیؑ کیلئے درخت میں بولنے کی           صلا حیت پیدا کردی۔
6. مرید:      وہ ہر کام اپنے ارادے سے کرتا ہے اور اسی کا ارادہ اٹل ہوتا ہے۔
7. صادق:    اللہ تعالٰی کی طرف سے آنے والا سارا پیغام سچ اور حق ہے اس کا ہر وعدہ سچا ہے۔
8. مدرک:    اللہ تعالٰی چونکہ ہر چیز کا خالق ہے لہٰذا ہر چیز کو سمجھتا اور جانتا ہے۔
           
                                     صفاتِ سلبیہ
کچھ صفات وہ ہیں جو خداند عالم کی شان کے لائق نہیں بلکہ وہ مخلوق میں پائی جاتی ہیں ۔ انہیں صفات سلبیہ کہا جاتا ہے۔ وہ بھی آٹھ ہیں۔

1.شراکت-     یعنی خداوند تعالٰی کی ذات میں کوئی اس کا شریک ہے نہ یس کی صفاتوں میں، نہ ہی اس کے کاموں میں کوئی شریک ہے ۔ اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہیں کر سکتے۔ وہ وحدہ لا شریک ہے۔
2۔  حلول:            اللہ تعالٰی کسی چیز میں نہیں سماتا اور نہ کوئی جگہ اسے اپنے اندر لے سکتی ہے۔
مکان :            پروردگار کسی جگہ سے مخصوص نہیں وہ ہر آن اور ہر جاء موجود ہے۔
4۔  ترکیب:          ذات الٰہی مرکب نہیں ، ہماری طرح اس کا جسم نہیں جو اجزاء سے مل کے بنا ہو۔
5۔  مرئی:           اللہ تبارک و تعالٰی نظر نہیں آتا وہ دیکھے جانے والی ذات نہیں ہے۔
6۔  محل حوادث: وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری طرح خداوند قدوس کی حلات تبدیل نہیں ہوتی کہ کھبی بچپن تو کبھی                           جوانی اورکبھی بڑھاپا ، کبھی نیند تو کبھی بیداری، یہ سب مخلوق کے حالات ہیں۔
محتاج:            اللہ تعالٰی اپنے افعال میں کسی کا محتاج نہیں ہے۔
صفات زائد برذات: اللہ تعالٰی کی کوئی صفت اس کی ذات سے جدا نہیں بلکہ اس کی صفات اس کی عین ذات ہیں۔
                     جبکہ ہماری صفات ہماری ذات سے الگ اور ہماری ذات پر زائد ہیں۔ یعنی جب ہم پیدا ہوئے تو ہمارے اندر                          کوئی صفت نہیں تھی بلکہ ہماری صفات بعد میں آہستہ آہستہ ہمارے اندر پیدا ہوتی ہیں مگر خدا وحدہ لا                               شریک کی صفات اس کی ذاتی ہیں وہ اپنی تمام صفات کے ساتھ ازلی و ابدی ہے۔

از کتاب: دین شناسی: جامعہ علوم اسلامی فیصل آباد۔
توحید افعال :
                اس جہان کی ہر چیز کا خالق اور ہر خیر کا فاعل اللہ تعالیٰ ہے۔ اس کی مشیت اور ارادے سے ہر کام ہوتا ہے اور ہمیشہ ہوتا رہے گا وہ اپنے افعال میں نہ کسی کی مدد اور نہ ہی کسی کے مشورے کا محتاج ہے۔
اَللّٰہٗ خَالِقُ کُلْ شَئْءٍ وَّ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَئءٍ وَّکِیلٌ
خدا ہر چیز کا خالق اور ہر چیز کی حفاظت کرنے والا ہے
 اور قرآن کے مطابق ساری کائنات کا وہ بلا شریک مالک ہے اسی کے قبضے میں ہر چیز ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ انبیاء اور آئمہؑ سے جو معجزات انجام پذیر ہوئے وہ سب خدا کے اذن سے واقع ہوئے ہیں۔ چنانچہ قرآن پاک نے حضرت عیسٰیؑ کیلئے فرمایاہے۔
"تم(عیسٰیؑ) پیدائشی اندھے اور برص کے (لاعلاج) مریضوں کو میرے اذن سے شفاء دیتے ہو اور میرے حکم سےمردوں کو زندہ کرتے ہو ۔" سورۃ مائدہ آیت 110

دین شناسی صفحہ نمبر 14
٭توحید عبادت٭
                عبادت صرف اللہ تعالٰی کے لئے مخصوص ہے اور اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں توحید کی یہ قسم سب سے اہم ہے۔ انبیا یہی تبلیغ کرتے تھے کہ صرف خدا کی عبادت کرو اس کی نا فرمانی اور شرک سے بچو۔ آئمہ طاہرینؑ بھی اسی کی تاکید کرتے تھے۔ جو خدا کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرے وہ مشرک ہے ۔
قرآن مجید میں ہے۔
وَقَضٰی رَبُّکَ اَنْ لَا تَعْبُدُوْا اِلَّا اِیَّاہُ
اور تیرے رب کا حکم ہے کہ اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو۔
توحید مالکیت:
                سب چیزی خدا کی ملکیت ہیں جیسے سورۃ بقرہ میں فرمایا۔
لِلّٰہِ مِا فِی السِّمٰواتِ وَ مَا فِی الْاَرْض
زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ اللہ کی ملکیت ہے۔
توحید حاکمیت:
                انسانوں کا حقیقی حاکم اللہ ہے اور ان کیلئے قانون بنانا فقط خدا کا کام ہے چونکہ وہ انسانوں کا خالق اور ان کی ضروریات سے آگاہ ہے۔
تَبَارَکَ الَّذِی بِیَدِہِ الْمُلْکُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَئ ءٍ قَدِیرٌ

بابرکت ہے وہ ذات جس کے قبضہ قدرت میں ساری کائنات کی حکومت ہے۔ اور  وہ ہر شے پر قادر ہے۔

No comments:

Post a Comment