﷽
شرعی احکام کی اہمیت اور
ان کا تعارف:
دین اسلام ایک مکمل ضابطئہ حیات ہے۔ خدا کا سب سے پسندیدہ
دین، اسلام ہی ہے۔ اللہ تعالٰی نے حضرت آدمؑ سے لیکر حضرت محمدﷺ تک مختلف انبیاء
کرامؑ کو مبعوث کیا جنہوں نے انسانوں کوایسے الٰہی پیغامات پہنچائے جو انہیں درست
اور صحیح راستے پر گامزن کرتے ہیں۔ خدا کے ان پیغامات میں انسان کی تمام ضروریات
کو مد نظر رکھا گیاہے۔ان الٰہی پیغامات میں ایمان اور عمل دونوں سے متعلق واضح
ہدایات موجود ہیں۔ یعنی انبیاء کرامؑ نے انسان کو ان باتوں سے بھی آگاہ کیا جن پر
ایمان لانا ضروری ہے اور ان باتوں کی بھی تعلیم دی جن کا تعلق عمل سے ہے۔ عمل سے
متعلق تعلیمات میں ایک شعبہ، شرعی احکام کا ہے۔ فقہ یا احکام ، اسلامی تعلیمات کا
وسیع ترین موضوع ہے۔
اسلامی تعلیمات
ایسی وسیع و جامع ہیں جن میں زندگی کے تمام ممکنہ حالات سے متعلق راہنما اصول دیئے
گئے ہیں ور کوئی ایسا موقع یا حالت نہیں ہے جس سے متعلق اسلامی احکام خاموش ہوں
خصوصاً مکتب اہل بیتؑ میں کسی انسان کو کسی بھی وقت یا حالت میں پریشانی کا سامنا
کرنا ہی نہیں پڑتا۔ لیکن ان تمام راہنما اصولوں کو جو انسانی زندگی کے تمام ممکنہ
حالات کو احاطہ کر رہے ہیں ایک عام انسان خود سے سمجھنے کی استعداد نہیں رکھتا۔
بلکہ زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح اسلامی تعلیمات میں بھی اللہ تعالٰی کی خاص توفیق
یافتہ ہستیاں اپنی زندگی کو صرف کرتی ہیں۔ اور اسلامی احکام (فروعات دین) کو خود
سے بڑی باریک بینی اور احتیاط سے سمجھ کر ہمیں بتاتے ہیں۔ اسی کا نام
"اجتہاد" اور "مرجعیت" ہے اور ایسی شخصیات کو مجتہد، فقیہ یا
مرجع تقلید کہا جاتا ہے۔ ہم انہی کے بتائے ہوئے فرامین پر عمل کرتے ہیں اسی کا نام
تقلید اور ہمیں مقلد کہا جاتا ہے۔ اجتہاد اور تقلید دونوں حضرت امام زمان علیہ
السلام کے دور غیبت میں واجب عمل ہیں۔
علم فقہ:
شرعی احکام کے علم کو "علم فقہ" کہتے ہیں او اسی
مناسبت سے شرعی احکام کا دوسرا نام "احکام فقہیہ" ہے۔ علم فقہ
کے مطابق ہمارا کوئی بھی عملی کام احکام
فقھیہ سے ہٹ کر نہیں ہے۔ ہم جو بھی فعل
انجام دیں یا تو وہ واجب ہوگا یا حرام، یا مستحب یا مکروہ، اور یا مباح۔
اللہ تعالٰی کی ذات جب اپنے بندوں کو کوئی حکم دیتی ہے تو
اس کی پانچ قسمیں ہوتی ہیں۔
1۔ واجب 2۔
حرام 3۔ مستحب/سنت 4۔ مکروہ 5۔
مباح
1۔ واجب:
واجب کا مطلب
ہے"لازمی" یعنی اللہ تعالٰی نے جس کام کو انسانوں پر ضروری قرار دیا ہو
اس کو واجب کہتے ہیں۔ مثلاً نماز ، روزہ، والدین کا احترام
اگر ہم واجب کام کریں تو اللہ خوش ہوگا اور ہمیں ثواب ملیں
گے۔ اور اگر ہم واجب کام نہیں کریں گےتو اللہ ناراض ہوگا اور ہمیں سزا ملے گی۔
2۔ حرام:
حرام کا مطلب
ہے ایسا کام جس کو ترک کرنا ضروری ہے۔ وگرنہ اللہ تعالٰی ناراض ہوتا ہے۔ مثلاً
گالیاں دینا ، چوری کرنا، گانے سننا
اگر ہم حرام کام کریں گے تو اللہ ناراض ہوگا اور ہمیں سزا
ملے گی۔ اور اگر ہم حرام کام نہ کریں اس سے اجتناب کریں گے تو اللہ خوش ہوگا اور
ہمیں ثواب ملےگا۔
3۔ مستحب یا سنت:
مستحب یا سنت
کا مطلب ہے"پسندیدہ کام" یعنی ایسا کام جسے کرنے سے اللہ اور اس کے رسول
ﷺ خوش ہوتے ہوں۔ لیکن اگر یہ کام نہ کریں تو گناہ نہیں ہوتا۔ لیکن اللہ کی خوشنودی
حاصل کرنے کے لیے ہمیں مستحب یا سنت کام کرنا چاہیے۔
مثلاً قرآن پاک کی
تلاوت کرنا۔ بیمار کی عیادت کرنا۔ ہر وقت وضو میں رہنا۔
اگر ہم سنت کام انجام دیں گے تو اللہ خوش ہوگا اور ہمیں
ثواب ملے گا۔ اور اگر ہم سنت کام انجام نہ دیں تو گناہ نہیں لیکن ہم اللہ کی
خوشنودی اور ثواب سے محروم ہو جائیں گے۔
4۔ مکروہ:
مکروہ کا
مطلب ہے" ناپسندیدہ" یعنی ایسا کام جس کو اللہ تبارک تعالٰی پسند نہیں
کرتا۔ ہمارے لیے ایسے کام سے بچنا بہتر ہے۔
مثلاً بائیں ہاتھ سے کھانا کھانا۔ صبح دیر تک سوتے رہنا۔
مسجد میں دنیاوی باتیں کرنا
اگر ہم مکروہ کام کریں گے تو گناہ نہیں لیکن ہم اللہ کی خوشنودی اور ثواب سے محروم ہو
جائیں گے۔ اور اگر مکروہ کام نہ کریں تو اللہ خوش ہوگا اور ہمیں ثواب ملے گا۔
5۔ مباح:
مباح کا مطلب
ہے "وہ کام جس کو کرنے کی اجازت دی گئی ہو۔ مباح کام کرنے سے نہ ثواب حاصل
ہوتا ہے نہ ہی گناہ ہوتا ہے۔
مثلاً کھانا پینا۔ سونا
اگر ہم مباح کام کریں گے تو نہ ثواب ہوگا نہ گناہ اور اگر
مباح کام نہ کریں گے تو بھی نہ ثواب ہو گا اور نہ گناہ۔
نوٹ:
حدیث شریف میں ہے ؛
انما الاعمال بالنیت "اعمال
کا دارو مدار نیت پر ہوتا ہے۔"
اگر کوئی انسان مباح کام اللہ کی خوشنودی کے لیے کرے تو اسے
ثواب بھی حاصل ہو سکتا ہے۔ مثلاً کھانا اس نیت سے کھائے کہ اس سے اس کا جسم طاقتور
ہوگا اور وہ اچھی طرح اللہ کی عبادت کرے گا۔ تو اسے کھانا کھانے کا بھی ثواب حاصل
ہوگا۔
فقہی احکام
کی اہمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں چاہیے کہ معرفت خدا، و دیگر اصول دین سے
آگاہی اور ان پر ایمان راسخ کے ساتھ ساتھ ان فقہی مسائل کو اچھی طرح سے سیکھیں اور
ان پر عمل پیرا ہوں۔ کیونکہ اگر ہم احکامات خداوندی کو بجا لائیں لیکن غلط طور پر
تو اس کا فائدے کی بجائے نقصان ہوگا۔ یعنی ثواب کی بجائے گناہ ہوگا۔ اس لئے علم
فقہ یعنی احکامات شرعیہ کو جاننے اورانہیں درست سمجھنے کی بہت ضرورت و اہمیت ہے۔
یہ احکام ایک طرف تو ہمیں عبادات کو درست اور صحیح طریقے سے انجام دینےکا طریقہ
سکھاتے ہیں۔ اور دوسری طرف دیگر انفرادی اور اجتماعی امور مین اسکلامی تعلیمات کے مطابق معاملات طے کرنے اور
درست اسلامی زندگی گزارنے کی راہ متعین کرتے ہیں۔
دین اسلام کی
رو سے ایک عام انسان پرفقہی احکام اس کے بالغ ہونے پر لاگو ہوتے ہیں۔ یعنی ایک غیر
بالغ بچے یا بچی پر کوئی فقہی حکم لاگو نہیں ہوتا۔
بالغ سے مراد انسان اک اپنی عمر کے اس حصے تک پہنچنا ہے جس میں اس کی سمجھ بوجھ
پختہ ہو جائے۔ دین اسلام کے مطابق لرکا پندرہ(15) قمری سال مکمل ہونے پر جبکہ لڑکی
نو(09)قمری سال مکمل ہونے پر بالغ تصور کئے جاتے ہیں۔
ماخوذ: اسلامی تعلیمات کا نصاب، نور الہدیٰ مرکز تحقیقات
تقلید:
کسی مجتھد کے فتوے پر عمل کرنا ، آپ جس پر تقلید کر رہے ہیں۔ اگر وہ کسی چیز
کے بجا لانے کا حکم دے تو اس کو بجا لائیں اگر کسی چیز سے روکے تو روک جائے۔ آپ کو
اس میں ذاتی رائے کا کوئی حق نہیں ۔ گویا آپ نے اپنے اعمال کا بوجھ اس کی گردن پر
ڈال دیا ، اب اللہ تعالٰی کے حضور وہی جواب دہ ہونگے۔
ازفقہی مکالمات: بمطابق با
فتاوای حضرت آیت اللہ العظمٰی سید محمد سعید الحکیم
احکامِ تقلید:
مسئلہ نمبر 1 :
ہر مکلف پر ،شرعی مسائل منجملہ
نماز،روزھ،طہارت اور کچھ معاملات کے مسائل سیکھنا واجب ہے۔ اگر وہ احکام نہ
سیکھے اور اس سے کوئی واجب چھوٹ جائے یا حرام کا ارتکاب ہو جائے تو وہ گنہگار
کہلائے گا۔ لفظ"مکلف" کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جس میں شرائط تکلیف
موجود ہوں۔
مسئلہ نمبر 2:
شرائط تکلیف درج ذیل ہیں۔
۔ بلوغ
2۔ عقل
3۔ قدرت
ازتوضیح المسائل :حضرت آیت اللہ سیدعلی الحسینی الخامنہ
ای
No comments:
Post a Comment